بھارت گرچہ گزشتہ چند سالوں سے ہتھیاروں اور دفاعی سازوسامان کی خریداری کے لیے روس کے علاوہ چند دیگر اہم ممالک کی طرف بھی بڑھتا دکھائی دیا تاہم اب بھی اس کا زیادہ تر انحصار روسی ساختہ ہتھیاروں پر ہے۔
اشتہار
جنوبی ایشیا کی جوہری طاقت بھارت اب تک اپنی دفاعی خریداریوں کے لیے سب سے زیادہ انحصار روس پر کررہا تھا تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران بھارت نے روسی ہتھیاروں پر انحصار کم کرتے ہوئے دیگر ممالک سے ہتھیاروں کی خریداری شروع کردی۔
جنوبی ایشیا کی جوہری طاقت اور دنیا کی چند اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک، بھارت تاریخی اعتبار سے نہ صرف روس کا دیرینہ اتحادی رہا ہے بلکہ ہتھیاروں، دفاعی سازو سامان، مشینری وغیرہ کو اپ گریڈ یا جدید اور بہتر بنانے کے لیے بھی روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا آیا ہے۔ 90 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں بھارتی فوج کے ہتھیاروں کا قریب 70 فیصد، فضائی دفائی نظام کا 80 فیصد اور بحریہ پلیٹ فارم کا قریب 85 فیصد بنیادی طور پر سویت ساختہ تھا۔
بھارت 2016ء سے 2020ء تک مختلف ممالک سے اپنی دفاعی خریداریاں کرتا رہا ہے۔ اس اثناء میں نئی دہلی حکومت نے اسلحہ جات اور فوجی سازو سامان کی خریداری کے لیے امریکہ، اسرائیل، فرانس اور اٹلی کی طرف رُخ کیا۔ یہاں تک کہ 2020ء تک روس کا بھارت کے دفاعی شعبے کے لیے برآمدات کا حصہ تقریباً 49 فیصد رہ گیا تھا جبکہ بھارتی دفاعی برآمدات میں یورپی ملک فرانس کا 18 فیصد اور اسرائیل کا 13 فیصد حصہ شامل تھا۔ یہ اعداد و شمار اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ 'سپری‘ نے جاری کیے ہیں۔
اس کے باوجود بھارتی دفاعی شعبے میں غیر معمولی اہمیت کے حامل سازو سامان اور جنگی ہتھیار روسی ساختہ ہی ہیں۔ اس بارے میں بھارتی فوج کے ایک سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا کہتے ہیں، ''روس واحد ملک ہے جس نے بھارت کو ایٹمی آبدوز لیز پر دی۔ کیا دنیا کا کوئی دوسرا ملک بھارت کو ایٹمی سب میرین لیز پر دے گا؟ ‘‘
سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے منسلک ایک سینیئر فیلو سوشانت سنگھ کے بقول، ''بھارتی بحریہ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری جہاز ہے جو روسی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے پاس جو لڑاکا طیارے ہیں اُس کا ایک بڑا حصہ روسی ہے جبکہ بھارتی فوج کے پاس تقریباً 90 فیصد جنگی ٹینک روسی ہی ہیں۔‘‘
1987ء میں بھارتی بحریہ نے سابق سویت یونین سے Chakra-1، چارلی کلاس جوہری کروز میزائل سب میرین تربیتی مقصد کے لیے سے لیز پر لی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے ایک اور سویت سب میرین Chakra-2 بھی حاصل کی۔ 2019ء میں بھارت نے روس کے ساتھ تین بلین ڈالر کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کے تحت بھارت نے روس سے جوہری طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوز Akula-1 10 سال کے لیے لیز پر لی اور اس کی فراہمی 2025ء تک متوقع ہے۔
بھارت نے اپنا واحد طیارہ بردار بحری جہاز INS وکرامادیتیا 2004ء میں روس سے خریدا تھا۔ یہ کیریئر سابق سویت یونین کے دور میں خدمات انجام دے چُکا ہے اور بعد میں روسی بحریہ میں شامل رہا ہے۔ بھارت کا پہلا مقامی ایئر کرافٹ برادار بحری جہاز آئندہ سال تک بھارتی فوج میں شامل ہو جائے گا۔ بھارت کے پاس چار جوہری طاقت والی بیلسٹک میزائل بردار آبدوزیں بھی جلد آنے والی ہیں۔ بھارت کی فضائیہ اس وقت 410 سے زیادہ سوویت اور روسی جنگی طیاروں سے لیس ہے۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔