کیا رانا ثنا اللہ کو حکومت کی مخالفت کی سزا دی جا رہی ہے ؟
2 جولائی 2019اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے رانا ثنا اللہ کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس نے رانا ثنا اللہ کی گاڑی سےاکیس کلو سے زائد منشیات برآمد کی ہے۔ ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمے میں منشیات ایکٹ کی دفعہ 9 سی بھی شامل کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت گرفتار ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر جو سزائیں ہو سکتی ہیں ان میں سزائے موت، عمر قید، 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی شامل ہیں۔
ممتاز قانونی ماہر اور برکلے گریجوئیٹ بابر سہیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر برآمد کی گئی منشیات کی مقدار 10 کلوگرام تک ہو تو اس پر 14 سال قید اور ایک ملین تک جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے،’’لیکن رانا ثنا اللہ کے معاملے میں 21 کلو گرام منشیات کی برآمدگی کا دعوی کیا گیا ہے اس لیے ان پر صرف سزائے موت اور عمر قید کی سزاؤں کا ہی اطلاق ہی ہو گا۔‘‘ ان کے مطابق بادی النظر میں ایسے کیسز میں ضمانت کا ملنا بھی آسان نہیں ہوتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس کیس میں رانا ثنااللہ کو سزائے موت ہو سکتی ہے، بابرسہیل کا کہنا تھا،’’ اس کیس کی فائل میرے سامنے نہیں ہے لیکن یہ پاکستان ہے یہاں کیا کچھ ہو سکتا ہے ہم سب جانتے ہیں۔ تاہم یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ابھی اس موقع پر یہ بات بہت قبل از وقت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس کیس کا چالان کیسے تیار ہوتا ہے، عدالت میں شواہد کیسے پیش اور ثابت کیے جاتے ہیں۔ عدالت نے نہ صرف یہ سارے شواہد دیکھنے ہیں، بلکہ ان شواہد کی کوالٹی کو بھی جانچنا ہے۔ ان الزامات کو ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا"
وہ مزید کہتے ہیں،’’بظاہر انسانی ذہن کے لیے اس بات کو ماننا بہت ہی مشکل ہے کہ ایک زبان دراز اپوزیشن لیڈر،جو صرف رکن قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کا سب سے بڑے صوبے میں سربراہ بھی ہو اور اس نے ٹی وی پر اپنی گرفتاری کے خدشے کا اعلان بھی کر رکھا ہو وہ منشیات کی اتنی بڑی مقدار گاڑی میں رکھ کر سڑکوں پر گھوم رہا ہو گا۔‘‘
آج منگل کی صبح جب نون لیگی رہنما کو سخت سیکورٹی میں پیشی کے لیے ضلع کچہری لایا گیا تو کچہری اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پولیس اور اینٹی رائٹ فورس کے سینکڑوں اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ ضلع کچہری کے باہر خاردار تاریں لگائی گئی تھیں اورضلع کچہری کے اطراف میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔ ادھر فیصل آباد میں بھی رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے جانے والے درجنوں کارکنوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اس صورتحال پر غور کر کے آئندہ کی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی صدارت میں مسلم لیگ ن کا اعلیٰ سطحی اجلاس ماڈل ٹاؤن میں طلب کیا گیا۔ مسلم لیگ نون کے ایک کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے نہیں لگتا کہ ان کی پارٹی کوئی موثر احتجاج کر سکے گی۔ اس کے بقول برا وقت تو نواز شریف کے ساتھیوں پرآیا ہے جبکہ شہباز شریف کے دھڑے کے لوگوں پر ہاتھ ہولا رکھا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ رانا ثنا اللہ کو ان کے واضح اور دلیرانہ موقف کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف وفاقی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری ایک آزاد ادارے نے کی اس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ حکومتی رہنماؤں کی طرف سے مزید گرفتاریوں کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے اور جن الزامات کے تحت رانا ثنا اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے اس سے تویہی لگتا ہے کہ یہ ایک سیاسی گرفتاری ہے اور رانا ثنا اللہ کو حکومت کی مخالفت کی سزا دی جا رہی ہے،’’ایک ایسے وقت میں جب ملکی تاریٖخ کے سب سے سخت بجٹ کے اثرات عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور کاروباری اور تجارتی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا ہے ایسے میں مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثنا اللہ کو گرفتارکر کے بڑی کامیابی کے ساتھ عوامی توجہ بجٹ سے ہٹا دی گئی ہے۔‘‘
مجیب شامی کے بقول اس سے پہلے بھی رانا ثنا کو اغوا کرکے ان کی بھوئیں، مونچھیں اور سر کے بال مونڈ دیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ’’ماضی میں چوہدری ظہور الہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج ہوا تھا اور تو اور خود میرے، محمود علی قصوری، اصغر خان اور جاوید ہاشمی کے خلاف بھی آئی بی کی گاڑی سے پرزے چرانے اور حملہ کرنے کا جھوٹا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔‘‘