کیا رضاکارانہ وطن واپسی پر ہر مہاجر کو 3000 یورو ملیں گے؟
شمشیر حیدر
16 دسمبر 2017
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں تارکین وطن سے مخاطب ہوتے ہوئے رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے کے خواہش مند پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے لیے مالی امداد میں اضافے کا ذکر کیا تھا۔
اشتہار
وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے اس انٹرویو میں جرمنی میں مقیم پناہ کے مسترد درخواست گزاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر آپ (آئندہ برس) فروری سے قبل رضاکارانہ طور پر وطن لوٹنے کا فیصلہ کریں، تو اب آپ کو بنیادی معاونت کے علاوہ وطن واپسی پر پہلے ایک برس کے دوران وہاں رہائش پر اٹھنے والے اخراجات بھی دیے جائیں گے۔‘‘
اس نئے منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے ڈے میزیئر کا کہنا تھا، ’’آپ کے اپنے وطن میں بھی آپ کے لیے امکانات موجود ہیں، ہم ٹھوس طریقہ کار کے تحت آپ کے واپس اپنے اپنے معاشروں میں انضمام کے لیے آپ کی معاونت کریں گے۔‘‘
کس ملک کے کتنے پناہ گزین رضاکارانہ وطن واپس لوٹے؟
بین الاقوامی ادارہ مہاجرت تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی اور اپنے ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے رواں برس AVRR نامی اس منصوبے سے کن ممالک کے شہری زیادہ مستفید ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۱۔ البانیا
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے رضاکارانہ وطن واپسی اور آباد کاری کے منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی میں البانیا کے 4421 شہری وطن واپس لوٹے۔ سن 2016 میں اس منصوبے سے مستفید ہونے والے البانیا کے شہریوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: DW/A. Muka
۲۔ عراق
شورش زدہ ملک عراق کے شہریوں میں رضاکارانہ وطن واپسی کا رجحان گزشتہ برس بھی موجود تھا جب قریب تیرہ ہزار عراقی شہری آئی او ایم کے اس منصوبے کے تحت واپس عراق چلے گئے تھے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چار ہزار عراقی اس منصوبے سے مستفید ہوئے۔
تصویر: DW/B. Svensson
۳۔ ایتھوپیا
افریقی ملک ایتھوپیا کے تئیس سو شہری آئی او ایم کے رضاکارانہ وطن واپسی کے اس پروگرام میں حصہ لے کر اپنے وطن واپس گئے۔ گزشتہ پورے برس کے دوران اس منصوبے کے تحت سات ہزار ایتھوپین تارکین وطن اپنے ملک واپس لوٹے تھے۔
تصویر: IOM Ethiopia
۴۔ افغانستان
گزشتہ برس آئی او ایم کے اس منصوبے میں حصہ لینے والے افغان شہریوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد رہی تھی۔ تاہم اس برس اس رجحان میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب اکیس سو افغان شہری رضاکارانہ طور پر وطن لوٹ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۵۔ سربیا
یورپی ملک سربیا کے مختلف ملکوں میں موجود تارکین وطن میں سے قریب سترہ سو افراد بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے تعاون سے واپس اپنے ملک لوٹے۔ گزشتہ برس ایسے سرب باشندوں کی تعداد قریب سات ہزار رہی تھی۔
تصویر: privat
۶۔ مقدونیا
مشرقی یورپ ہی کے ایک اور ملک مقدونیا کے پانچ ہزار شہریوں نے گزشتہ برس اس منصوبے سے استفادہ کیا تھا تاہم رواں برس کی پہلی ششماہی میں واپس وطن لوٹنے والے مقدونیا کے شہریوں کی تعداد پندرہ سو رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۷۔ پاکستان
پاکستانی تارکین وطن میں رضاکارانہ وطن واپسی کے رجحان میں اس برس اضافہ ہوا ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب پندرہ سو پاکستانی رضاکارانہ وطن واپسی کے اس منصوبے سے مستفید ہوئے جب کہ گزشتہ پورے برس میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد 1278 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۸۔ سینیگال
مغربی افریقہ کے ملک سینگال سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تیرہ سو تارکین وطن بین الاقوامی ادارہ برائےمہاجرت کے شروع کردہ اس منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/L. Gnago
۹۔ یوکرائن
یورپی ملک یوکرائن کے ہمسایہ ملک روس سے کشیدہ تعلقات کے باعث یوکرائنی باشندوں میں یورپ کی جانب مہاجرت کا رجحان نوٹ کیا گیا تھا۔ تاہم اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران قریب تیرہ سو یوکرائنی رضاکارانہ طور پر واپس یوکرائن چلے گئے۔
تصویر: DW
۱۰۔ روس
آئی او ایم کے شروع کردہ رضاکارانہ وطن واپسی اور آبادکاری کے اس منصوبے سے مستفید ہونے والے روسی تارکین وطن کی تعداد اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران گیارہ سو سے زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
جرمن وزیر داخلہ کے اس انٹرویو کے بعد دنیا بھر کے میڈیا نے اس موضوع پر جو خبریں شائع کیں، ان میں بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ڈے میزیئر نے ہر تارک وطن کو رضاکارانہ وطن لوٹنے پر اضافی معاونت دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
اضافی معاونت کسے ملے گی؟
جرمن وزیر داخلہ نے جس نئے پروگرام کا تذکرہ کیا تھا، اسے ’آپ کا ملک، آپ کا مستقبل، اب‘ (یا جرمن زبان میں Dein Land. Deine Zukunft. Jetzt) کہا جاتا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے جانے والے تارکین وطن کو ان کے آبائی وطنوں میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ لیکن اس پروگرام کے تحت امداد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درخواست گزار تارک وطن REAG/GARP اور Starthilfe Plus جیسے منصوبوں کے تحت واپس اپنے آبائی وطن لوٹ رہا ہو۔
علاوہ ازیں اضافی معاونت فراہم کرنے کا یہ منصوبہ ہر ملک کے شہریوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت سمیت پینتالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے مختص ہے۔(مکمل فہرست اس لنک میں دیکھیے)
’آپ کا ملک، آپ کا مستقبل، اب‘ منصوبے کے تحت یکم دسمبر 2017ء سے لے کر آئندہ برس اٹھائیس فروری کے مابین جرمنی سے رضاکارانہ طور پر اپنے آبائی وطن لوٹنے والے مہاجر خاندانوں کو وہاں ایک سال تک رہائش پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ہزار یورو دیے جائیں گے، جب کہ تنہا وطن لوٹنے والے تارک وطن کو ایک ہزار یورو تک دیے جا سکتے ہیں۔
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
یہ امر بھی اہم ہے کہ اپنے آبائی وطن میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں معاونت کے اس منصوبے کے تحت کسی تارک وطن کو نقد رقم فراہم نہیں کی جائے گی بلکہ یہ معاونت مکان کے کرائے یا فرنیچر کی فراہمی کی صورت میں دستیاب ہو گی۔
رضاکارانہ واپسی کا طریقہ کار
آبائی وطن میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے اضافی معاونت کے نئے منصوبے سے مستفید ہونے کے لیے لازم ہے کہ تارکین وطن رضاکارانہ واپسی کے منصوبے میں شامل ہوں۔ جرمنی سے رضاکارانہ وطن واپسی کا پروگرام ’اسٹارٹ ہِلفے پلس‘ جنوری سن 2017 سے جاری ہے۔ جرمن حکومت کے مالی تعاون سے شروع کردہ اس منصوبے کی نگرانی بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) اور مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر (بی اے ایم ایف) کے اہلکار کرتے ہیں۔
آئی او ایم نے گزشتہ چالیس برسوں سے تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی کے REAG/GARP نامی پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ 'اسٹارٹ ہِلفے پلس‘ بھی انہی منصوبوں کی توسیع ہے۔ برلن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز سے لے کر اکتوبر کے اختتام تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن 'اسٹارٹ ہِلفے پلس‘ کے تحت اور قریب پچیس ہزار تارکین وطن آئی او ایم کے وطن واپسی کے منصوبوں کے تحت جرمنی سے اپنے اپنے آبائی ممالک کی جانب لوٹ چکے ہیں۔
رضاکارانہ وطن واپسی کے خواہش مند پناہ کے مسترد درخواست گزار مزید معلومات ان لنکس کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں:
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔