کیا روس بھی اسد کا ساتھ چھوڑنے والا ہے؟
19 فروری 2016اقوام متحدہ میں روس کے مندوب ویتالی چُرکن نے روس کے قریبی اتحادی بشار الاسد کو ایک غیر معمولی تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسد نے امن عمل میں ماسکو حکومت سے تعاون نہ کیا تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
چُرکن نے گزشتہ ہفتے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’روس نے بہت سنجیدگی کے ساتھ اس بحران کو حل کرنے کے لیے سیاسی، سفارتی اور اب فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ اس لیے ہم چاہیں گے کہ اسد بھی مثبت اقدامات کریں۔‘‘
انہوں نے شامی صدر کے حالیہ بیان کو روس کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کے منافی قرار دیا۔ گزشتہ ہفتے شام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 17 ممالک نے شام میں بحالی امن کے لیے جنگ بندی، محاصروں کے خاتمے اور امن مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی بشار الاسد نے بھی فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پورے ملک کو واپس اپنے کنٹرول میں لے آئیں گے۔
جمعہ 19 فروری کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے بھی غیر معمولی طور پر بشار الاسد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن شام میں امن عمل کی حمایت کرتے ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی جنگ بندی کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پیسکوف کا کہنا تھا، ’’صدر پوٹن سمیت ہر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کا طریقہ کار ابھی طے کیا جا رہا ہے اور جلد بازی کی بجائے انتظار کرنا چاہیے۔
چُرکن جو کہ امریکہ میں روس کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی صدر کا بیان سیاسی مقاصد کے لیے تھا اس لیے اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جانا چاہیے اور بیانات کی بجائے عملی اقدامات پر نظر رکھی جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مندوب نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دمشق حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ پانچ سال سے جاری خانہ جنگی اور تباہی و بربادی کے بعد میونخ میں طے پانے والے معاہدہ شام میں امن قائم کرنے کا ایک موقع فراہم کر رہا ہے۔