کیا روس شام میں زمینی کارروائی بھی کر رہا ہے؟
8 نومبر 2015ستمبر کے مہینے سے روس شام میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جن کا مقصد بقول بعض تجزیہ کاروں کے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو بچانا ہے۔ مغربی ممالک اسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، تاہم روس کی شام میں مداخلت کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ اور مشکل ہو گئی ہے۔
روس کی شام میں جنگی کارروائیاں جہاں عسکری مقاصد حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں، وہیں ان کا ایک مقصد مغربی ممالک کو یہ بتانا بھی ہے کہ ماسکو ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر ایک بھرپور طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔
روسی صدر ولادمیر پوٹن کا بہرحال کہنا ہے کہ وہ شام میں زمینی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کا شام میں آپریشن فوجی تربیت کاروں، معاونین اور عسکری ساز و سامان کی ترسیل تک ہی محدود رہے گا۔
تاہم امریکی سکیورٹی افسران اور بعض ماہرین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ شام میں روسی فوجیوں کی تعداد دو ہزار سے بڑھ کر چار ہزار تک ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’کونفلکٹ انٹیلیجنس ٹیم‘ نامی روسی بلاگرز کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے تین سابق اور حاضر روسی فوجیوں کی شامی سر زمین پر موجودگی کی نشان دہی کی ہے۔
تنظیم کا مزید کہنا ہے، ’’گو کہ ہمارے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ روسی فوجی براہ راست زمینی فوجی کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ روس سرے سے شام کی زمین پر ہونے والی لڑائی کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
روسی حکام کی جانب سے اس تنظیم کے دعوے پر کوئی رد عمل تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا الزام ہے کہ روس کے شام میں حملوں کا ہدف شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نہیں بلکہ صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار باغی ہیں۔
واشنگٹن کے کینن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر میتھیو روجینسکی کے مطابق شام کے بحران کا مرکز داعش نہیں بلکہ عالمی سطح پر طاقت کی رسہ کشی ہے۔ ’’تنازعہ سفارتی سطح سے بالا تر ہو چکا ہے۔ نہ ہی اب یہ معاشی دباؤ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ ایک ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ فوجی طاقت کے استعمال سے اپنی بات منوانے کا عمل بن چکا ہے۔‘‘
روس کی شام میں فوجی کارروائیوں سے داعش کے مضبوط ہونے کا امکان بھی ہے۔ پیرس میں قائم ’اسٹریٹیجک ریسرچ فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ کیمیلی گرانڈ کا مغربی ممالک کو مشورہ ہے کہ انہیں روس سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے، اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو یہ سمجھانے کی بھی کہ ماسکو کے فوجی اقدامات کتنے خطرناک ہیں او ان سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔