’کیا روم کو کراچی سمجھ لیا ہے‘، اطالوی شہری برہم
28 نومبر 2015جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے روم سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جو بائیڈن نے روم میں گھوم پھر کو جو وقت گزارا، اُسے کچھ مقامی لوگوں نے زیادہ پسند نہیں کیا ہے۔ اس ناپسندیدگی کا تعلق نائب امریکی صدر کے دورے کے دوران کیے جانے والے سخت حفاظتی انتظامات سے تھا۔
جو بائیڈن کروشیا سے اپنے اس دو روزہ دورے پر روم پہنچے تھے، جہاں اُنہیں نے جمعے کے روز اٹلی کے وزیر اعظم ماتیو رینزی کے ساتھ ساتھ ویٹیکن کے وزیر خارجہ آرچ بشپ پال گیلیگر کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ اس کے بعد کا وقت وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ گزارنا چاہتے تھے۔
اطالوی اخبار Il Messaggero نے اپنی ہفتہ اٹھائیس نومبر کی اشاعت میں نائب امریکی صدر کے دورے کے دوران کیے جانے والے سخت حفاظتی انتظامات اور اس کی وجہ سے مقامی باشندوں کو ہونے والی پریشانی پر احتجاج کیا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ جو بائیڈن اور اُن کی اہلیہ کو وِیا دائے کونڈوٹی کے علاقے میں ایرمینیگلڈو زیگنا فیشن بوتیک میں جانے کی اجازت دی گئی، جس کے بعد امریکی فوج اور اطالوی پولیس کے بھاری اسلحے سے لیس سپاہیوں نے سیاحوں اور مقامی باشندوں کو اُس شاپنگ سٹریٹ کی طرف جانے سے روک دیا۔
اس اطالوی اخبار نے اپنے پہلے صفحے پر اپنے ایک اداراتی مضمون میں احتجاج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران شہر کے ساتھ ’بوگوٹا یا کراچی جیسا سلوک کیا گیا‘۔ اخبار کے مطابق یہ سلوک ویسا ہی تھا، جیسا ’نو آبادیاتی دنیا کے کسی بھی دارالخلافے کے ساتھ کیا جاتا ہے، جہاں غیر ملکی شخصیات کو سہولت فراہم کرنے کے نام پر عام کاروبارِ زندگی کو مفلوج کر دیا جاتا ہے۔
بائیڈن فیملی اپنے اس دورے کے دوران ایک بڑے قافلے کے ہمراہ روم کی مشہور تاریخی یادگار کولوسیم کی بھی سیر کرنے کے لیے گئی۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جو بائیڈن نے اپنے دورہٴ روم کے حوالے سے لکھا ہے کہ اطالوی وزیر اعظم کے ساتھ اُن کی بات چیت میں دیگر بین الاقوامی موضوعات کے ساتھ ساتھ انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا زور توڑنے اور اُسے شکست دینے پر توجہ مرکوز کی گئی۔