کیا زندگی کو کسی خاص مدت تک منجمد رکھنا ممکن ہے؟
6 اگست 2023عالمی درجۂ حرارت میں ہوشربا اضافے سے پیدا شدہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سےلگایا جاسکتا ہے کہ سائبیریا کے ہزاروں سالوں سے منجمد علاقے بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ لیکن سائبیریا کی پرما فروسٹ یا منجمد زمین کے پگھلنے سے سائنسدانوں کو زمانۂ قدیم کے بارے میں جاننے میں بہت مدد ملی ہے۔ یہاں کے منجمد دریاؤں سے اکثر اوقات وائرس اور خوردبینی و عظیم الجثہ جانوروں کی باقیات ملتی رہتی ہیں۔
2018 ء میں روس کے انسٹی ٹیوٹ آف فزیو کیمیکل اینڈ بایو لوجیکل پرابلمز سے منسلک سائنسدان انستازیا شیٹی لووچ کو سائبیریا کے کولائیما نامی دریا سے دو منجمد راؤنڈ ورمز یا کینچوے ملے تھے۔ یہ راؤنڈ ورمز تقریبا 130 فٹ کی گہرائی پر منجمد زمین میں دفن تھے اور ساکن حالت میں تھے۔
انستازیا شیٹی لووچ نے لیبارٹری کے مخصوص ماحول میں جب ان راؤنڈ ورمز کو پانی میں ڈالا تو حیرت انگیز طور پر یہ ہوش میں آگئے۔ یہ ایک چونکا دینے والی پیش رفت تھی جس نے دنیا بھر سے سائنسدانوں کو اس جانب متوجہ کیا۔ بعد ازاں ان کیڑوں کی عمر معلوم کرنے کے لئے انھیں ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ جرمنی بھیج دیا گیا۔
ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں کیا تحقیق کی گئی؟
27 جولائی 2023 کو پبلک لائبریری آف سائنس کے جینیاتی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ان راؤنڈ ورم کی عمر 45،839 سے 47،769 برس کے درمیان ہے۔ اس عرصے کو سائنسی اصطلاح میں (PLEISTOCENE) کہا جاتا ہے۔
اس تحقیق میں معاونت کرنے والے ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ جرمنی کے ایک محقق تیمورز کرزشیلیا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سائنسدانوں کے لئے یہ جاننا انتہائی اہم تھا کہ ان راؤنڈ ورمز کی عمر کیا ہے جس کے لئے ریڈیو ایکٹو کاربن ڈیٹنگ کی تکنیک استعمال کی گئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ صرف چند ملی میٹر سائز کے ان کیڑوں کا تعلق نیماٹوڈ انواع سے ہے جو انتہائی کم درجۂ حرارت میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کیڑے تقریبا 46 ہزار سال پہلے پیدا ہوئے اور کسی طرح سائیبیریا کی پرما فروسٹ میں دفن ہوگئے۔ اس طویل عرصے کے دوران یہ ساکن حالت میں رہے جسے سائنسی اصطلاح میں کرائیٹو بایوسز کہا جاتا ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ چونکہ ان راؤنڈ ورمز کا دور حیات صرف چند دن ہوتا ہے اس لئے ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں افزائش نسل کے بعد یہ طبعی موت مر گئے تھے۔
کرزشیلیا کے مطابق نیماٹوڈ کی اس طرح کی انواع دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں جو ایک مخصوص وقت تک خود کوساکن رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے سائنسدان اس تحقیق میں معاونت کر رہے ہیں اور ان راؤنڈ ورمز کی جین پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایک مخصوس شوگر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، جسے (TREHLOSE) کہا جاتا ہے۔ اس جین پر مزید تحقیق سے معلوم ہوگا کہ یہ نیما ٹوڈ کس طرح طویل عرصے تک منجمد رہتے ہیں۔
تحقیق سے اٹھنے والےسو الات
کرزشیلیا کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے سب سے اہم سوال یہ سامنا آیا ہے کہ کیا زندگی کو طویل مدت تک منجمد رکھا جاسکتا ہے؟
یونیورسٹی آف کولون کے زولوجی انسٹی ٹیوٹ سےوابستہ سائنسدان فلپ شیفر نے اس تحقیق میں معاونت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تحقیق اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جانوروں اور پرندوں کی بہت سی انواع معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ جینیاتی انجینئرنگ سے کس طرح ان انواع کو شدید ماحولیاتی تبدیلیوں میں زندہ رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
شیفر کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ الارمنگ صورتحال سے مطابقت پیدا کرنے کے لئےاہم فیصلوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان نیماٹوڈز کی جین پر مزید تحقیق سے ماہرین ماحولیات کو مؤثر پالیسیاں بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
قدیم انواع پرتحقیق خطرناک؟
اس تحقیق کے شائع ہوتے ہی بہت سے حلقوں کی جانب سےیہ تشویش سامنے آئی ہے کہ اگر یہ کیڑے 46 ہزار سال قدیم ہیں تو کیا ان پر یا قدیم انواع پر تحقیق انسانیت کے لئے خطرناک نہیں ہوگی؟
اس طرح کے سوالات کورونا وائرس وبا کے دوران بھی اٹھائے گئے تھے جب اس وائرس کے ایک لیبارٹری سے لیک ہوجانے کی خبریں ہر جانب گردش میں تھیں۔ اس حوالے سے کرز شیلیا کہتے ہیں کہ سوالات کی حد تک یہ تشویش درست ہے مگر دنیا بھر میں اس طرح کی تحقیقات لیبارٹریوں کے محفوظ ماحول میں کی جاتی ہے، جہاں سے کسی وائرس یا وبا کا پھیل جانا محض اتفاقی یا حاد ثاتی ہی ہو سکتا ہے۔
کرشیلیا کہتے ہیں کہ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے سائیبیریا کی منجمد زمین تیزی سے پگھل رہی ہے جہاں سے قدیم خوردبینی و عظیم الجثہ جانووروں کی باقیات دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے ان پر تحقیق تو ہوگی مگر انسانیت کے وسیع تر مفاد میں محفوظ ماحول میں تحقیق کرنا سائنسدانوں کی ذمہ داری ہے۔