1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

کیا سری لنکا خود کو معاشی بحران سے باہر نکال سکے گا؟

13 اکتوبر 2023

سری لنکا کی اقتصادی اصلاحات آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آنے سے پہلے ملک کو ایک بہت طویل سفر طے کرنا ہو گا۔

سری لنکا، کولمبو میں ایک شخص خریداری کرتا ہوا
گرچہ ملک میں اب ضروری اشیاء کا مسئلہ پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے، تاہم بھوک اور غربت میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہےتصویر: Thilina Kaluthotage/Nur Photo/IMAGO

سری لنکا گزشتہ کئی برسوں سے متعدد محاذوں پر چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، جو معاشی بحران سے بڑھتے ہوئے خوراک، بجلی اور ایندھن کی قلت جیسی مشکلات میں تبدیل ہو گیا۔

سری لنکا میں بدھ مت کی تعطیل کے موقع پر ایک ہزار قیدی رہا

سن 2022 میں سری لنکا اپنے قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کے سبب ڈیفالٹ کر گیا، جس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالر کے ایک بیل آؤٹ ڈیل کی کوشش کرنی پڑی۔

چین سری لنکا میں ایک اور بڑا بندرگاہی کمپلیکس تعمیر کرے گا

 سری لنکا میں پوائنٹ پیڈرو انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ کے ماہر معاشیات اور محقق متوکرشنا سروانتھن کا کہنا ہے کہ گرچہ ملک میں اب ضروری اشیاء کا مسئلہ قدرے کم ہو گیا ہے، تاہم بھوک اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

خانہ جنگیوں کی طویل تاریخ کا ماحولیاتی تباہی میں ہاتھ

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افراط زر سے متعلق سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اشیاء خورد و نوش سمیت، روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں میں زبردست کمی آئی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی اب بھی اتنی زیادہ قیمتیں ہیں کہ وہ بیشتر آبادی کی پہنچ سے باہر ہیں۔''

سری لنکا 2026ء تک دیوالیہ پن کا شکار رہے گا، ملکی صدر

حال ہی میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں غربت کی شرح سن 2021 میں 13 فیصد سے بڑھ کر سن 2022 میں 25 فیصد ہو گئی۔

ادویات کی شدید قلت، سری لنکا غیر ملکی امداد طلب کرنے پر مجبور

سری لنکا کی معاشی اور سیاسی ہلچل

سن 2022 میں معاشی بحران کے عروج کے دوران سری لنکا کے عوام حکمرانی میں تبدیلی اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

سری لنکا کے ایک تھنک ٹینک 'سینٹر فار پالیسی الٹرنیٹیوز' میں انسانی حقوق کی وکیل اور محقق بھوانی فونسیکا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا ہے، ''ایک سال بعد بھی ان مطالبات کو ابھی تک مکمل طور پر پورا نہیں کیا جا سکا ہے اور معاشرے کے بہت سے طبقات میں مایوسی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے چند ماہ گزر جانے کے باوجود بھی چیلنجز جاری ہیں۔''

سری لنکا کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی اب بھی اتنی زیادہ قیمتیں ہیں کہ وہ بیشتر آبادی کی پہنچ سے باہر ہیںتصویر: Thilina Kaluthotage/Nur Photo/IMAGO

 سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے نے کہا ہے کہ وہ ان تبدیلیوں کو لانے کے لیے پرعزم ہیں، اور انہوں نے ٹیکس انتظامیہ میں خامیوں کو دور کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ایک نیا انسداد بدعنوانی بل بھی اس وقت پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے۔

سرواناتھن کا کہنا ہے کہ ''اگر ان پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تب بھی، ان اقدامات کے ثمر آور ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ ٹیکس کی چوری گزشتہ چالیس سالوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے، سری لنکا کی معاشی نظم و نسق کی نفسیات کا حصہ رہی ہے۔ مختصر مدت میں اس پر قابو پانا مشکل کام ہے۔''

سری لنکا میں معاشیات سے متعلق تھنک ٹینک 'ویریتی ریسرچ' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نشان ڈی میل کا کہنا ہے کہ سری لنکا کا بحران ''سب سے اول اور بنیادی طور پر حکمرانی کا بحران'' ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے معاشی بحران آیا اور معاشی بحران کے طول پکڑنے کا رجحان ہے۔''

نوجوان سری لنکن شہری بیرون ملک قسمت آزمانے پر مجبور

03:06

This browser does not support the video element.

ان کا کہنا ہے، ''طرز حکمرانی میں تغیرات کو درست کیے بغیر معاشی تغیرات کو ٹھیک کرنے کی کوشش، سری لنکا اس ضرب المثل کے مانند ہو گا کہ جس نے اپنا گھر ریت پر تعمیر کیا ہو۔ اس کے پائیدار ہونے کا امکان نہیں ہے۔''

ویریتی ریسرچ کے مطابق ستمبر کے اواخر تک آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جن 71 وعدوں پر عمل کیا جانا تھا، اس میں سے صرف 40  ہی قابل تصدیق حد تک پورے کیے گئے ہیں، خاص طور پر شفافیت، گورننس اور ریونیو کو بہتر بنانے سے متعلق وعدے پورے نہیں ہوئے۔

ویریتی ریسرچ کے ڈی میل کا خیال ہے کہ سری لنکا اس پروگرام کے تحت اپنے اقدامات کے ساتھ ہی تیزی سے غیر شفاف ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ''ستمبر 2023 تک، تقریباً 30 فیصد وہ وعدے جنہیں پورا کیا جانا تھا، ان کے بارے میں کوئی معلومات تک نہیں ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''شفافیت سے متعلق چار وعدوں میں سے تین کو پورا نہیں کیا گیا۔ البتہ آئی ایم ایف کی مرتب کردہ گورننس ڈائیگناسٹک کو ضرور شائع کیا گیا۔''

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ آئی ایم ایف بھی اپنے معاشی اصلاحات کے منصوبوں کے ساتھ مزید شفاف ہو سکتا تھا۔

ڈی میل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سری لنکا میں پارلیمنٹ کے اراکین بھی یہ نہیں جان سکے کہ معاشی بحالی کے پروگرام کو کیسے ڈیزائن کیا گیا تھا، جبکہ آئی ایم ایف کے بورڈ سے اسے پہلے ہی منظور کیا جا چکا تھا۔''

آئی ایم ایف کی تازہ ترین قسط میں تاخیر

ستمبر کے اواخر میں آئی ایم ایف نے کہا کہ سری لنکا کے ساتھ ممکنہ محصولات کی کمی کی وجہ سے اسٹاف کی سطح پر معاہدے تک پہنچا جا سکا۔ اس نے کہا کہ اس لیے 333 ملین ڈالر کی اگلی قسط اس وقت تک جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ ایسا معاہدہ نہیں ہو جاتا۔

سری لنکا کے لیے آئی ایم ایف کے سینیئر مشن چیف پیٹر بریور نے ستمبر کے اواخر میں آئی ایم ایف کے پہلے جائزہ مشن کے بعد کہا تھا کہ ''آمدنی میں اضافہ اور بہتر طرز حکمرانی کا اشارہ دینے کے لیے، ٹیکس انتظامیہ کو مضبوط کرنا ہو گا، ٹیکس میں رعایات کو ختم کرنا اور ٹیکس چوری کو فعال طور پر ختم کرنا اہم ہو گا۔''

سری لنکا کی حکومت نے محصولات میں اس کمی کو دور کرنے کے لیے ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ ویریتی ریسرچ کے ڈی میل نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔

 انہوں نے کہا، ''ٹیکس کی بنیاد بڑھانے کے بجائے، حکومت نے اقلیتی فرموں اور سری لنکا میں ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں پر ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کر دیا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''ٹیکس کی آمدن میں اضافے اور پرجوش اہداف سے متعلق آئی ایم ایف کا پروگرام ہونے کے باوجود، حکومت نے مخصوص کمپنیوں، مخصوص سرمایہ کاروں اور مخصوص اجارہ داری کی صنعتوں کے لیے رعایات اور ٹیکس میں کمی کو بھی منظور کیا ہے۔''

لیکن آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سری لنکا نے ''مشکل لیکن انتہائی ضروری اصلاحات'' کو نافذ کرنے میں ''قابل تعریف پیش رفت'' کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ''یہ کوششیں نتیجہ خیز ہو رہی ہیں کیونکہ معیشت میں استحکام کے عارضی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔''

کریتیگا نارائنن/  ص ز/ ج ا

سری لنکا میں مظاہرین کا صدارتی محل پر قبضہ، اب کیا ہو گا؟

03:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں