1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

کیا روایتی میلے دوبارہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں؟

13 اکتوبر 2024

ثقافتی میلے صدیوں سے پنجاب کے فوک کلچر کا حصہ اور لوگوں کی من پسند تفریح رہے ہیں جو آہستہ آہستہ زمانے کی تیز رفتار ترقی اور سماجی حالات کے سبب اپنا دیو مالائی حسن کھونے لگے۔

تصویر: Farooq Azam/DW

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف روایتی میلوں کو بحال کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کے دور میں کیا یہ میلے بڑے پیمانے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے؟

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی ثقافت پر گہری نظر رکھنے والے مصنف اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں، ”پنجاب کے موسم اور زرعی عہد کی خوشحالی نے یہاں ثقافتی سرگرمیوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول مہیا کیا۔ یہی وجہ ہے آس پاس کے دیگر علاقوں کی نسبت پنجاب میں میلوں ٹھیلوں کا کلچر حاوی نظر آتا ہے۔  نوے کی دہائی تک جوان ہونے والے اہل پنجاب کے لیے لکی ایرانی سرکس اور موت کا کنواں ایک انتہائی خوبصورت ناسٹلجیا ہے جسے نئی نسل کبھی نہیں سمجھ سکتی۔ یہ پورا کلچر تھا جو بتدریج زوال کا شکار ہوتا چلا گیا۔"

پنجاب میں ثقافتی میلوں کی چمک کیسے ماند پڑی؟ 

جاوید اقبال کنجال کا تعلق بستی کنجال ضلع لیہ سے ہے جہاں وہ 1988 سے عوامی ثقافتی میلہ سجاتا آ رہے ہیں۔ اس میلے کی خاص بات ایک مقامی کھیل 'دودا‘ ہے۔ 

وہ پنجاب میں ثقافتی میلوں کے زوال پذیر کلچر پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ''ثقافتی میلوں کے بہت سے منظر جدید دور کی ترقی سے پس منظر میں چلے گئے۔ مثال کے طور پر یہاں لیہ میں میلہ عنایت شاہ لگتا تھا جو اونٹوں کا سب سے بڑا میلہ تھا۔ آج کتنے لوگوں کے پاس اونٹ رہ گئے ہیں؟ جب اونٹ ہی نہ رہے تو میلے کی پرانی شان بھی ختم ہو کر رہ گئی۔ بیل اور گھوڑے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وقت کی گردش انہیں کھا گئی۔"

میلے کے شرکا لوک موسیقی سنتے ہوئےتصویر: Farooq Azam/DW

جاوید اقبال مزید بتاتے ہیں، ”دوسری بڑی وجہ دہشت گردی کی لہر تھی جس کے بعد اجتماعات پر پابندی لگنا شروع ہو گئی۔ رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی۔ مثال کے طور پر لکی ایرانی سرکس والوں کا یہ کُل وقتی کام تھا جس سے ان کا رزق جڑا تھا۔ جب میلہ نہیں ہو گا تو آمدن نہیں ہو گی، جب آمدن نہیں ہو گی تو موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کوئی اور کام ڈھونڈ لے گا۔ اس طرح پنجاب کے ثقافتی میلوں کو دہشت گردی اور کورونا نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔"

نئی نسل کی روایتی میلوں سے دوری کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ”ایسے میلوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ نئے پن کی کمی تھی۔ مثال کے طور پر لکی ایرانی سرکس میں جو کچھ ہم نے نوے کی دہائی میں دیکھا پندرہ بیس سال بعد بھی وہی دیکھ رہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں ہونی چاہیے تھیں، وہ نہیں ہوئیں جس کے سبب لوگ دلچسپی کھونے لگے۔"

ثقافتی میلے لوگوں کی تفریحی سرگرمیوں میں آج کہاں کھڑے ہیں؟

صدیوں تک اہل پنجاب کی ثقافتی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھنے والے یہ میلے اِس خطے کے باسیوں کے لیے آج کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ کیا بے شمار دیگر تفریحی سرگرمیوں میں ان کی کشش کم ہوئی ہے؟

اس ضمن میں چکوال میں مقامی سطح پر کلچرل ایونٹس کروانے والے متحرک نوجوان ولید ریحان ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”گذشتہ تین ماہ کے دوران چکوال میں کم از کم ایک درجن سے زائد میلے ہوئے جن میں عوام کا سمندر تھا۔ ہر عمر اور صنف کے لوگ پرجوش نظر آ رہے تھے جس کا مطلب ہے ثقافتی میلے لوگوں کے لیے آج بھی اہم ہیں۔"

پنجاب کو ’وساکھی تہوار‘تصویر: Farooq Azam/DW

مصنف احمد اعجاز کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”آپ کہیں بھی چلے جائیں لوگوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ نظر آئے گی کیونکہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ثقافتی میلے اپنی پرانی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے یہ سب سے بڑی تفریحی سرگرمی تھی، اب بہت سی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”اب لوگ مقامی کلچر کے حوالے سے زیادہ پُراعتماد نظر آتے ہیں۔ آج ثقافتی سرگرمیاں 'پینڈو پن‘ کا ٹیگ نہیں بلکہ قابل فخر اثاثہ ہیں جنہیں نوجوان نسل 'اون‘ کرتی ہے۔ یہ بہت خوش آئند ہے۔"

کیا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں ثقافتی میلے بڑے پیمانے پر لوگوں کی توجہ کھینچ سکیں گے؟ 

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والی نوجوان نسل کی دلچسپیاں بظاہر الگ نوعیت کی ہیں مگر اکمل شہزاد گھمن سمجھتے ہیں کہ یہ ثفاقتی میلوں کی بحالی کا بہترین وقت یے۔

گھمن کے مطابق، ”آؤٹ دور تفریحی سرگرمیوں کی جتنی ضرورت آج ہے ماضی میں کبھی نہ تھی۔ سوشل میڈیا بے پناہ انٹرٹینمنٹ ہے لیکن آپ اس کی یکسانیت سے اکتانے لگتے ہیں۔ پھر نوجوان نسل میں روزبروز یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ بہتر دماغی و جسمانی صحت کے لیے کمرے سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔"

تصویر: Farooq Azam/DW

احمد اعجاز کہتے ہیں، ”سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مواد کی تلاش میں ہے۔ انہیں کوئی نہ کوئی دلچسپ سرگرمی چاہیے جہاں وہ ٹک ٹاک بنا سکیں۔ دیہی علاقوں میں ٹک ٹاک کا رجحان زیادہ مضبوط ہے جو ثقافتی میلوں کا اصل مرکز ہے۔ بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ تفریحی سرگرمی میسر ہو اور لوگ اسے نظر انداز کریں۔"

حکومتی سرپرستی سے زیادہ سازگار ماحول کی ضرورت 

جاوید اقبال کنجال میلوں کی بحالی کے حوالے سے پنجاب حکومت کے عزم کو سراہتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اصل چیز معاشرے کا وہ ماحول ہے جہاں ثقافتی سرگرمیاں ہموار طریقے سے پروان چڑھ سکیں۔ 

وہ کہتے ہیں، ”اب صورت حال یہ ہے کہ چھوٹا سا ایونٹ کرنے کے لیے بھی ضلعی انتظامیہ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں سٹرکچر ہی ایسا ہے کہ دس چکر لگاؤ، وضاحتیں دو اور سفارشیں کراؤ تب جا کر این او سی ملتا ہے۔ یہ انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کیا ہم پاگل ہیں جو کسی مفاد کے بغیر پیسہ اور توانائی لگا رہے ہیں اور اوپر سے افسران کی منتیں بھی کرنا پڑ رہی ہیں۔"

ان کے لیے ثقافتی سرگرمیوں میں مذہبی مداخلت بھی تشویش کا باعث ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”مولوی کہتا ہے میلے میں رقص و موسیقی نہ ہو، ہم پوچھتے ہیں اس کے بغیر میلہ کیسے ہو سکتا ہے۔ مقامی سطح پر مولوی بہت طاقتور ہوا ہے، وہ ہر معاملے میں اپنی رائے نافذ کرتا ہے۔ یہ خوفناک ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ایسے ماحول میں میلوں ٹھیلوں کا کلچر کیسے پرورش پا سکتا ہے؟"

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں