چند برس قبل جوش و خروش سے شروع کی جانے والی پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کی رفتار بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔ کئی حلقوں کی رائے میں آنے والے وقتوں میں اس منصوبے پر مکمل جمود طاری ہو جائے گا یا پھر اسے ختم کر دیا جائے گا۔
اشتہار
پچاس ارب ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کو مسلم لیگ ن کی حکومت میں بہت جوش و خروش کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ پروجیکٹ اتنا اہم بن گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوششیں کرتی رہی تھیں۔ چند تجزیہ نگاروں نے تو اس منصوبے کا سہرا سابق فوجی آمر پرویز مشرف اور اس کے بعد کی فوجی قیادتوں کے سر باندھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں کئی حلقوں نے سی پیک کو نئی مقدس گائے کہنا شروع کر دیا اور اس پر تنقید کرنے والوں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔
پھر پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد اس منصوبے پر بالواسطہ حملے بھی شروع ہو گئے تھے۔ پہلے وزیر تجارت رزاق داؤد نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے سی پیک کے کچھ منصوبوں کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بد عنوانی کے الزامات بھی لگائے تھے۔
اب ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ سی پیک پر کام تقریباﹰ رک چکا ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے سابق ترجمان جان محمد بلیدی کے خیال میں موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سی پیک کہیں نہیں ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گوادر ایئر پورٹ کے لیے زمین لے لی گئی ہے لیکن اس پر کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔ چین کو گوادر میں تین سو میگاواٹ کا پاور پلانٹ بھی لگانا تھا۔ اس کے لیے بھی زمین خریدی جا چکی ہے مگر کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔ گوادر کی بندرگاہ پر بھی جمود طاری ہے۔ تو گزشتہ ایک برس میں سی پیک پر بمشکل ہی بلوچستان میں کوئی کام ہوتا دکھائی دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ پروجیکٹ اب تقریباﹰ رکا ہوا ہے۔‘‘
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ چینی رہنما سی پیک سے جڑے منصوبوں میں بد عنوانی کے الزامات کی وجہ سے ناراض ہیں۔ سی پیک سے جڑی ایک اہم وزارت کے افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب رزاق داؤد اور مراد سعید نے الزامات لگائے تو چینی بہت پریشان ہوئے۔ پہلے وہ قرضے دیتے تھے اور بعد میں پروکیورمنٹ کا کہتے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ آپ پروکیورمنٹ پہلے کریں اور اس بات کی بھی ضمانت نہیں دیتے کہ وہ قرضے دیں گے بھی یا نہیں۔ تو حکومت پروکیورمنٹ کیسے کر سکتی ہے؟ اس کے پاس تو فنڈز ہی نہیں ہیں۔ ان حالات میں تو یہی لگتا ہے کہ سی پیک اب تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس پر اب کوئی کام ہو گا۔ اگر ہوا بھی، تو اس کی رفتار بہت سست ہو گی۔‘‘
سیاست دانوں کے خیال میں بھی بد عنوانی کے الزامات نے چینیوں کو پریشان کر دیا ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی عناصر بھی اس کام کی رفتار کو کم کروا دینے یا اسے رکوا دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ جب پی پی پی نے اس منصوبے کو شروع کیا تو اسے بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، ''لیکن ہم رکے نہیں تھے۔ صدر زرداری نے چین کے تیرہ دورے کر کے اعتماد کی فضا پیدا کی۔ آج حکومت امریکا اور چین دونوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے نااہل ہونے نے چینیوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ ایسی صورت میں سی پیک کے باقی رہ جانے والے منصوبے جمود کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
پاکستان میں کئی تجزیہ نگار بھی اس بیرونی دباؤ کو سی پیک کی رفتار کے کم ہو جانے کا سبب سمجھتے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل چوہدری کے خیال میں آنے والے وقتوں میں سی پیک پر آئی ایم ایف، امریکا اور ورلڈ بینک کی وجہ سے بھی کام مزید سست ہو جائےگا۔ انہوں نے بتایا، ''ظاہر امریکا اور مغربی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اس منصوبے کو مکمل کرے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیسہ چاہیے۔ ریونیو کا ٹارگٹ پورا نہ ہوا، تو پاکستان امریکا سے استثنیٰ مانگے گا تاکہ آئی ایم ایف سے نئی قسط مل سکے اور اس کے لیے امریکہ شرائط لگائے گا۔ تو کام بہت سست تو ہو جائے گا لیکن پاکستان سی پیک کو مکمل طور پر ترک نہیں کر سکتا۔‘‘
پاکستانی وزارت مواصلات کے ایک افسرکا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی اہم منصوبے ادھورے رہ گئے ہیں۔ اس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سکھر سے کراچی تک موٹر وے پر کام رکا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی روٹ، جو ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان جاتا ہے، اس پر بھی کام رکا ہوا ہے۔ اورنج لائن اور گرین لائن سمیت کئی منصوبے جمود کا شکار ہیں۔ تاہم اس طرح نقصان چین کو نہیں بلکہ پاکستان کو ہو رہا ہے اور ہو گا۔‘‘
پی ٹی آئی کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے سی پیک کی قربانی دے رہی ہے۔ لیکن پارٹی کے ایک رہنما اسحاق خاکوانی اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اس پروجیکٹ کو ترک کر دیں۔ حکومتیں تبدیل ہونے کے بعد بات چیت ہوتی ہے، جیسا کہ ملائیشیا میں بھی ہوا۔ تو اس منصوبے پر ممکنہ طور پر بات چیت اور ادائیگیوں کے طریقہ کار پر بھی گفتگو ہو رہی ہو گی۔ لیکن اس منصوبے کو ختم کرنے کی باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
سی پیک کے تحت کراچی سرکلر ریلوے نظام کے احیاء کا منصوبہ
پاکستانی حکومت بیس برسوں سے معطل کراچی میں لوکل ٹرینوں کے نظام کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت کام کا آغاز کرنے والی ہے۔ چین نے اس مد میں 1.7 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رابطے منقطع
سن 1999 میں کراچی میں سرکلر ٹرینوں کے بند ہونے کے بعد سے کراچی کے شہریوں کے لیے آمد ورفت جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔ لوکل ٹرینیں کراچی کے مضافاتی علاقوں کے رہنے والوں کو شہر کے اقتصادی اور صنعتی زونوں سے مربوط رکھتی تھیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
افراتفری اور آلودگی
کراچی کی آبادی قریب بیس ملین ہے، اس کے باوجود وہاں کوئی مناسب ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد نہ صرف کراچی کے غیر معمولی اور بے ہنگم ٹریفک میں کمی آئے گی بلکہ موٹر گاڑیوں سے نکلتے بے پناہ دھوئیں میں بھی کمی پیدا کرے گی۔ اس طرح فضائی آلودگی میں کمی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: picture-alliance/Asianet Pakistan/R. Ali
ریلوے کی پٹریوں پر ناجائز تجاوزات
اگرچہ تینتالیس کلو میٹر طویل کراچی سرکلر ریلوے کا بڑا حصہ اب بھی موجود ہے لیکن اس پر جا بجا غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں۔ یہ ناجائز تجاوزات نہ صرف ریلوے ٹریک کے آس پاس ہیں بلکہ بعض مقامات پر پٹریوں کے اوپر بھی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
انہدام اور از سر نو تعمیر
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی لوکل ٹرین سسٹم کو دوبارہ شروع کرنے سے قبل قریب 5،000 گھر اور سات ہزار دیگر تجاوزات کو گرایا جانا ضروری ہے۔ توقع ہے کہ متعدد رکاوٹوں کے باوجود اس منصوبے پر رواں برس ہی کام شروع کر دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت
اس سال اپریل میں جب حکومت نے تجاوزات گرانے کی کوشش کی تو کچی بستیوں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا۔ ایک طویل عرصے سے ریلوے لائن کے قریب بسنے والے افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور اُنہوں نے بلڈوزروں کو بھی آگ لگائی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’نیو سلک روڈ‘ کا حصہ
کراچی میں ریلوے سرکلر روڈ کا احیاء چین کے ’نیو سلک روڈ‘ نامی بین الاقوامی اِنی شی ایٹو پلان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لیے رقم پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ سے دی جائے گی۔