1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد کی سفارتی واپسی، کیا شامی آمر آخرکار جیت گئے؟

11 جنوری 2023

علاقائی سطح پر متعدد ایسے اشارے مل رہے ہیں، جن کے مطابق جنگی جرائم اور تشدد کے الزامات کے باوجود صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے سفارتی قبولیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

Kombobild Baschar al - Assad Erdogan und Abdel Fattah el-Sisi

عرب ریاست شام کئی دہائیوں سے تشدد، جنگ، جرائم اور وسیع پیمانے پر شامی باشندوں کے ترک وطن جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ شام کے اردگرد قائم ممالک ہوں یا یورپی ریاستیں، شام کی جنگ کے اثرات قریب ہر خطے کے ممالک پر پڑے ہیں۔ تاہم شامی صدر بشار الاسد پر بطور سیاستدان اور حکمران اپنے ملک کی تباہی اور اپنے عوام کی ناگفتہ بہ صورتحال کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کے برعکس ان کی پوزیشن مسلسل مضبوط ہی ہوتی دکھائی دی، یہاں تک کہ چند اہم علاقائی قوتوں نے بشارالاسد کے ساتھ ملاقاتوں اور مذاکرات کا راستہ اختیار کر لیا۔ 

ترکی اور عرب رہنماؤں کے حالیہ تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بشار الاسد اور شامی حکومت کی سفارتی بحالی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جنگی جرائم اور تشدد کے الزامات کے باوجود دمشق حکومت کو صدر بشارالاسد کی سربراہی میں بین الاقوامی قبولیت ملنے کی راہ میں رکاوٹیں دور ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

شامی خانہ جنگی کے دوران 2022ء سب سے کم خونریز سال رہا

عوامی مخالفت کے باوجود

بشار الاسد کو خود اپنے عوام کی ایک بڑی تعداد، انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور تنظیموں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں ہزاروں شامی باشندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے شام کے شمالی علاقے میں ہونے والا احتجاج تھا۔ ان مظاہروں کا سلسلہ اگرچہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود شام کے آمر رہنما بشار الاسد کے ساتھ بین الاقوامی نہیں تو کم از کم علاقائی سطح پر روابط بحال کر کے چند اہم ممالک کے سربراہان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ اسد حکومت کو قبول کر لیا گیا ہے اور علاقائی سیاست کے لیے وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ 

رجب طیب ایردوآن اور بشارالاسد : استبول میں 2009 ء میں ایک تاریخی ملاقات کے دورانتصویر: BULENT KILIC/AFP/Getty Images

گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان دمشق میں تھے، جہاں انہوں نے بشار الاسد سے ملاقات کی۔ اسی دوران یعنی گزشتہ ہفتے ہی ایک اور غیر معمولی اقدام اُس وقت دیکھنے میں آیا،  جب بشار الاسد کے ایک دیرینہ دشمن ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک بیان میں کہا کہ وہ غالباً جلد بشار الاسد اور ان کے روسی اتحادیوں سے ملاقات کریں گے۔

شام: لیک ویڈیو اسد حکومت کے جنگی جرائم کا ٹھوس ثبوت

 2011 ء سے بشارالاسد کی مخالفت

شام میں بشار الاسد کے خلاف ایک طرح کی بغاوت یا انقلاب کا آغاز پُرامن حکومت مخالف مظاہروں سے ہوا تھا۔ ان مظاہروں کو بشار الاسد حکومت نے انتہائی جابرانہ انداز میں کچلنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر عرب ممالک نے اسد کے ساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر لیے تھے۔ تاہم ایک دہائی کے بعد اب صورتحال بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقائی رہنما دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ یہ امر واضح ہے کہ علاقائی رہنما اپنی اپنی سلامتی اور اقتصادی معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے شام سے متعلق اپنی پالیسیوں پر از سر نو غور کر رہے ہیں۔   

صدر اسد کا علاقائی استقبال

عرب ریاست شام کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل رہی ہے۔  متحدہ عرب امارات اور بحرین نے دمشق میں اپنے سفارت خانے 2011 ء میں بند کر دیے تھے، جنہیں 2018 ء کے اختتام پر دوبارہ کھول دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ اسد حکومت کی حمایت دوبارہ شروع ہونے لگی۔

 چند اقدامات قابل ذکر ہیں۔ 2021 ء میں اُردن، شام، لبنان اور مصر کے توانائی کے وزراء نے اس امر پر اتفاق کیا کہ لبنان شام کے راستے مصر سے گیس اور اُردن سے بجلی برآمد کرے گا۔ اکتوبر دو ہزار اکیس میں اُردن کے بادشاہ پہلے عرب رہنما تھے، جنہوں نے اسد سے شامی اقتدار سے برطرف ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ اُس وقت اسد اور اُردن کے بادشاہ کے مابین ایک دہائی کے دوران اس نوعیت کی پہلی بات چیت تھی، جو بذریعہ ٹیلی فون ہوئی تھی۔شام میں شہریوں پر بم حملہ کرنے والا ملزم برلن میں گرفتار

 

شام اور روس دیرینہ دوستتصویر: Alexei Druzhinin/Tass/dpa/picture alliance

 عراق، لبنان، عمان اور الجزائر سمیت کئی ممالک نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ 22 رکنی عرب لیگ میں شام کو دوبارہ خوش آمدید کیا جائے۔ یاد رہے کہ شام کی عرب لیگ  میں رکنیت دو ہزار گیارہ میں معطل کر دی گئی تھی۔

مفاہمت کی راہ میں رکاوٹیں

لندن کی کوئن میری یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر کرسٹوفر فلپس نے 2019 ء میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک جائزہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا،'' اسد کی مکمل بحالی کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو ممبر ترکی ہیں۔‘‘

تاہم رواں مہینے ترک صدر ایردوآن نے شامی صدر کیساتھ ایک اعلیٰ سطحی ملاقات کا جو عندیہ دیا، وہ پروفیسر فلپ کی نگاہ میں ایک نشاندہی ہے کہ ترکی شاید شامی صدر بشارالاسد کی بحالی کی راہ میں اب زیادہ دیر تک رکاوٹ برقرار نہیں رکھے گا۔ اسد کے ساتھ ملاقات کے بارے میں ایردوآن کا تبصرہ ماسکو میں ترکی اور شامی حکام کی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔

 روس، جو شام کا ایک اہم اتحادی ہے، شامی خانہ جنگی میں بہت زیادہ ملوث رہا ہے۔ وہ بھی ترکی اور شام کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دے رہا ہے۔ امکان ہے کہ تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ اس ماہ کے آخر میں ملاقات کریں گے۔

تاہم پروفیسر کرسٹوفر فلپس نے ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے بتایا، ''ایردوآن کے اقدامات کو 'حقیقی مفاہمت کے طور پر دیکھنے‘  کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''سکیورٹی وزراء اور وزرائے خارجہ کی ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت پر اتفاق میں بہت بڑا فرق ہے۔ کیونکہ ترکی کے کنٹرول والے علاقے ادلب اور شمالی شام میں سکیورٹی معاملات میں اب بھی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔‘‘

شامی صدر کی ایرانی صدر سے ملاقاتتصویر: Iranian Presidency/dpa/picture alliance

واضح رہے کہ ترکی شامی جنگ کے دوران مسلسل  شامی اپوزیشن کی حمایت کرتا رہا ہے اور شام میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری علاقہ ادلب، شمالی شام کے دیگر چھوٹے علاقوں کی طرح ترکی کی طرف سے محفوظ ہے۔ ترکی شام کے ان حصوں سے جلد پیچھے ہٹنا نہیں چاہے گا۔  

دس سالہ شامی خانہ جنگی میں ہلاکتوں کی تعداد اب نصف ملین

یوکرینی جنگ کے روسی اتحادی پر اثرات

مغرب کی طرف سے اسد حکومت کو خاطر خواہ رعایتیں ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بشار الاسد حکومت کی بحالی کے رستے کی دو بڑی رکاوٹیں برقرار رہنے کا امکان ہے۔

ایک وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یورپی یونین کے چند رکن ممالک شام کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کے معاملے میں منقسم ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں پروفیسر فلپس کہتے ہیں کہ یونان، رومانیہ، بلغاریہ اور یہاں تک کہ اٹلی اور اسپین جیسے ممالک کے بحیرہ روم کے پار تاریخی تعلقات ہیں، نیز غیر قانونی نقل مکانی، انسانی امداد، علاقائی استحکام اور مشرقی بحیرہ روم میں گیس کی تلاش جیسے مسائل پر غور کرنا ضروری ہے۔

پروفیسر کرسٹوفر فلپس کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کی جنگ نے صورتحال میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے۔ ان کے بقول،''یوکرین پر روسی حملے اور قبضے سے پہلے حقیقی معنوں میں جنوبی یورپی ممالک کے لیے ایک موقع تھا بشارالاسد کے ساتھ خاموشی سے تعلقات معمول پر لانے کا لیکن روس یوکرین جنگ نے روس کے خلاف یورپی ممالک کو مضبوط اتحادی بنا دیا ہے۔ اس وقت کوئی یورپی ریاست یا حکومت روس کے قریب ترین اور مضبوط ترین دوست بشار الاسد کے ساتھ مفاہمت کی خواہش مند نہیں‘‘۔

 اُدھر امریکہ بھی شام کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری یا کسی قسم کی نرمی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان کہہ چُکے ہیں،''ہم اسد حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘

شامی امور کے ماہر پروفیسر فلپس کی رائے میں اس صورت حال کو تبدیل کرنے والی واحد چیز یہ ہو گی کہ اگر اچانک بین الاقوامی سطح پر شامی حمایت کی ضرورت پڑ جائے۔ مثال کے طور امریکہ شام کو اسرائیل مخالف کے طور پر دیکھتا رہا لیکن پھر 1990ء کی دہائی کے اوائل میں وہ دمشق کیساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لے آیا تھا۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں شام اپنے عراقی ہمسائے صدام حسین کے حملے کے بعد کویت میں عراقی افواج کے خلاف امریکی فوجی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کا حصہ بن گیا تھا۔

(کیتھرین شیئر) ک م/ ا ا 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں