شامی خانہ جنگی کے فریقین گزشتہ ساڑھے آٹھ سال میں پہلی مرتبہ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں شام کے نئے آئین کے موضوع پر تبادلہ خیال ہو گا۔ کیا شام کو نیا آئین مل سکتا ہے؟
اشتہار
آج بدھ کو شام کی دستور ساز کمیٹی جنیوا میں ملاقات کر رہی ہے تاکہ ملک کے لیے ایک نیا آئین تیار کیا جائے۔ اس کمیٹی کے ڈیڑھ سو ارکان ہیں، جن میں پچاس کا تعلق حکومت سے، پچاس کا حزب اختلاف سے جبکہ بقیہ پچاس سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
اس دستور ساز کمیٹی کو روس اور ایران کے ساتھ ساتھ ترکی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ ممالک اس اجلاس کو اعتماد کی بحالی اور ایک ایسے وسیع سیاسی عمل کے امکان کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو اس تنازعے کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کو اپنے ترک اور ایرانی ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد کہا،'' ہم فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچیں۔‘‘
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے زور دے کر کہا کہ تینوں علاقائی طاقتیں اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کریں گی۔ اسی طرح ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا کہ وہ اس بات چیت کے حوالے سے بہت پر امید تو ہیں مگر انہیں اندازہ ہے کہ یہ معاملہ پیچدہ ضرور ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اس سے قبل شامی تنازعے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ثالثی کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ حکومت اور حزب اختلاف کوئی ٹھوس مذاکرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مندوب برائے شام گیئر پیڈرسن نے اسی ہفتے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا،''دستور ساز کمیٹی تنہا شام تنازعے کو حل نہیں کر سکتی اور نا ہی کرے گی۔‘‘ ناروے سے تعلق رکھنے والے اس سفارت کار نے مزید کہا کہ اس بات چیت کے دوران اعتماد سازی کی بحالی بہت ضروری ہے تاکہ ہزاروں جنگی قیدیوں کے مسائل کا بھی حل تلاش کیا جائے۔
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔