ہر جنگ کے کچھ اقتصادی اثرات ہوتے ہیں۔ شام کی جنگ ایک ایسی کثیر الجہتی پراکسی جنگ ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں شامل ہوتی جا رہی ہیں اور اس کے اقتصادی اثرات بھی وسیع ہوں گے۔
اشتہار
گزشتہ دو ہفتوں سے پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خام تیل، گیس اور ایلومینیم کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حالیہ دو ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کسی نہ کسی طریقے سے شام میں جاری کثیر الجہتی پراکسی جنگ سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
امریکا ہر صورت میں شامی حکومت کے حامی روس اور ایران کی معیشت کو عالمی منڈیوں سے الگ کرتے ہوئے انہیں کمزور بنانا چاہتا ہے۔ امریکی خارجہ اور فوجی پالیسیوں میں یہ دونوں ممالک دشمن کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ سن 2017 میں امریکی حکومت نے کاسٹا (سی اے اے ایس ٹی اے) نامی ایک خصوصی قانون منظور کیا تھا، جس کا مقصد روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی جنگ میں مدد حاصل کرنا تھا۔
چند روز پہلے چھ اپریل کو امریکا نے اسی کاسٹا نامی قانون کو استعمال کرتے ہوئے روسی مفادات کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کے ذریعے سات ایسی انتہائی بڑی کاروباری شخصیات کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن سے درجنوں کمپنیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سترہ اعلیٰ روسی سرکاری عہدیداروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں روس کی ایلومینیم تیار کرنے والی روسل نامی کمپنی بھی شامل ہے، جس کا عالمی مارکیٹ میں نو فیصد حصہ ہے۔ ان پابندیوں کے بعد اس کمپنی کے شیئر فوراﹰ گرنا شروع ہو گئے تھے اور روسی کرنسی روبل کی قدر میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ اسی ہفتے ایلومینیم کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا۔
امریکا نے روس کی دو بڑی توانائی کی کمپنیوں گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کے سربراہان پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اسی طرح روس کی اس آئل کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو روس میں گیارہ فیصد خام تیل کی پیدوار کی ذمہ دار ہے۔ گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کمپنیوں پر فی الحال پابندیاں عائد نہیں کی گئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے امریکا کے اتحادی یورپی ممالک کو گیس کی ترسیل میں خلل پیدا ہوتا اور پھر یورپ نے اس کی شدید مخالفت کرنی تھی۔
دوسری جانب نو اپریل کو تو مقامی منڈی میں ایرانی ریال کی قیمت باسٹھ ہزار ریال فی امریکی ڈالر تک گر گئی تھی، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی اور جو اس سے دو دن قبل سات اپریل کے روز ریال کی قیمت کے مقابلے میں 18 فیصد کم تھی۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔