کیا شاہد خاقان کا دورہٴ سعودی عرب ریاض کو منانے کی کوشش ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
23 اگست 2017
پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہٴ سعودی عرب کے حوالے سے ملک میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کئی ناقدین اس دورے کو ریاض حکومت کومنانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
وزیرِ اعظم ہاوس کی طرف سے ذرائع ابلاغ کے لئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہد خاقان علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال پر سعودی قیادت سے بات چیت کریں گے۔ لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سعودی حکمراں نواز شریف کی حکومت سے یمن کے مسئلے پر تعاون نہ کرنے پر سخت برہم تھی۔ شاہد خاقان کا یہ دورہ سعودی حکمرانوں کو منانے کی ایک کوشش ہے۔
کئی مبصرین نے یہاں اس بات پر بھی توجہ دی کہ وزیرِ اعظم اور ان کے وفد ، جس میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اوروزیرِ خارجہ خواجہ آصف بھی شامل ہیں، کا استقبال مکے کے ڈپٹی گورنرنے کیا۔کسی اعلیٰ سعودی عہدیدار نے پاکستانی وفد کا استقبال نہیں کیا۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں نواز شریف کے دور میں پاک سعودی تعلقات میں تلخی آگئی تھی اور ان کے خیال میں شاہد خاقان اس تلخی کو ختم کرنے کے لئے گئے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کو اس دورہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جب نواز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو جس طرح انہیں نظرانداز کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی نواز شریف سے خوش نہیں تھے، نواز کے خیال میں اسلام آباد کے تعلقات سعودی عرب سے اتنے ہی اہم ہیں جتنے کے ایران کے ساتھ، اس لئے انہوں نے ایک غیر جانبدارنہ لائن لی، جو سعودیوں کو پسند نہیں آئی۔‘‘
سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال میں تبدیلی ممکن ہے۔ معروف تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں آنے والے مہینوں میں ایران مخالف سرگرمیاں خطے میں بڑھ سکتی ہیں۔ اُن کے مطابق،’’ایرانی صدر نے ایک بار کہا تھا کہ جب تہران و اسلام آباد قریب آنے لگتے ہیں تو خفیہ ہاتھ اس کو خراب کرنے کے لئے سرگرم ہوجاتا ہے۔
احسن رضا کا کہنا ہے کہ پاک ایران پائپ لائن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہونے کے علاوہ ایران و پاکستان سرحد کے قریب دہشت گردانہ حملوں کا امکان ہے۔ احسن رضا کہتے ہیں،’’کچھ قوتوں نے پہلے بھی ایران کے خلاف بہت سے اقدامات اٹھائیں ہیں اور اب وہ ریاض کو خوش کرنے کے لئے مذید اقدامات اٹھائیں گے۔‘‘
تجزیہ کار رضا کے خیال میں، ’’ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد شاہی خاندان بڑا پراعتماد ہوگیا ہے اور اس نے اسی لئے قطر کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کی ہے، اس صورتِ حال کے پیش نظر پاکستان مجبور ہے کہ وہ سعودی حکمرانوں کو خوش کرے کیونکہ ٹرمپ کی افغان پالیسی بھی ہمارے خلاف ہے۔ لہذا کچھ قوتوں کے خیال میں ایسے موقع پر سعودی حکمرانوں کو خوش کرنا ضروری ہے۔‘‘
وفاقی حکومت کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’وفاقی دارالحکومت میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ ٹرمپ کی سخت پالیسی میں سعودی عرب کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ریاض اور واشنگٹن بہت قریب ہیں ۔ اب وزیرِ اعظم سعودی عرب اس لئے گئے ہیں کہ وہ پرانی غلطیوں پر معافی مانگیں اور ریاض سے کہیں کہ وہ امریکہ کو پاکستان پابندیاں لگانے سے روکے ۔‘‘
معروف تجزیہ نگار صابر کربلائی کے خیال میں پاکستان سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔ اُن کا کہنا ہے،’’ہمارے لاکھوں کارکنان وہاں کام کرتے ہیں، زرِ مبادلے کا ایک بڑا حصہ وہاں سے آتا ہے، تو ایک ایسے وقت میں جب ہماری معاشی حالت بہت کمزور ہے ، ہم سعودی عرب کو ناراض نہیں کریں گے۔‘‘
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘