کیا شمالی کوریا کے سیٹیلائٹس نیا تنازعہ کھڑا کر سکتے ہیں؟
13 مارچ 2022بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ اس کمیونسٹ ملک کی جانب سے جاسوسی اور علاقائی نگرانی کے ریکونائسیسنس سیٹلائٹ کے فضا میں بھیجنے سے ایک نیا عالمی تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس سیٹلائٹ کے لانچ کرنے پر جنوبی کوریا سمیت دیگر اہم عالمی طاقتیں برہمی کا اظہار کر سکتی ہیں۔
شمالی کوریا کا ایک اور مشتبہ ’بیلیسٹک میزائل‘ تجربہ
رواں برس جنوری میں شمالی کوریا نے میزائل داغنے کے کئی تجربات کیے اور ان کی تعداد اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ اب اس نے ایسا عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات کا سلسلہ یا پھر بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کا آزمائشی عمل دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ عالمی سطح پر تنہائی کے شکار اس ملک نے سن 2017 کے بعد بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا کوئی تجربہ نہیں کیا ہے۔
ریکونائسیسنس سیٹلائٹ
شمالی کوریا نے فضا میں جاسوسی اور علاقائی نگرانی کے سیٹلائٹ سے متعلق بنیادی تیاریوں کے سلسلے میں اتوار چھ مارچ کو ایک میزائل تجربہ کیا تھا۔ یہ ایک ہفتے میں کیا جانے والا دوسرا تجربہ تھا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اب کسی بھی وقت شمالی کوریا زمین کے خلائی مدار میں ریکونائسیسنس سیٹلائٹ روانہ کر سکتا ہے۔ اسے لے کر جانے والے ایک بڑے راکٹ کے لیے ایک نیا لانچنگ پیڈ بھی تعمیر کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی کوریا خلا میں پہنچنے کی دوڑ میں برسوں سے شامل ہے۔
شمالی کوریا: جاسوس سیٹلائٹ سسٹم کا تجربہ کرنے کا دعویٰ
ابھی تک سیٹلائٹ کا کوئی ایک بھی تجربہ کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا کیونکہ پیونگ یانگ نے اس بابت کوئی واضح معلومات یا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریائی سیٹلائٹ ابھی تک خلا سے پیغام کی ترسیل میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔
سن 2021 میں حکمران ورکرز پارٹی کی کانگریس میں شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جن خواہشات کا اظہار کیا تھا، ان میں ملٹری ریکونائسینس سیٹلائٹ کو زمین کے مدار میں پہنچانا بھی شامل تھا۔
شمالی کوریا کا خلائی پروگرام
سن 1998 سے اب تک پیونگ یانگ حکومت اپنے خلائی پروگرام کے تحت پانچ سیٹلائٹس زمین کے مدار کی جانب روانہ کر چکی ہے۔ ان میں سے دو کامیابی سے منزل پر پہنچ پائے اور بقیہ تین کو راستے ہی میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
نیا میزائل امریکی علاقے گوام کو نشانہ بنا سکتا ہے، شمالی کوریا
آخری مرتبہ نگرانی و جاسوسی کا سیٹلائٹ سن 2016 میں روانہ کیا گیا تھا۔ سن 2016 میں روانہ کیے گئے سیٹلائٹ میں شمالی کوریائی سائنسدانوں نے تین منازل والا راکٹ استعمال کیا تھا۔
شمالی کوریا کی قیادت نے سن 2020 میں ایڈوانس لیول کے سیٹلائٹ روانہ کرنے کا ارادہ ضرور ظاہر کیا لیکن اس مناسبت سے کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔
شمالی کوریا کے خلائی پروگرام کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے خلائی پروگرام کی ایک بڑی منزل چاند پر ملک کا پرچم لہرانا ہے۔
امریکا اور اتحادیوں کی مذمت
ان تجربات کے حوالے سے امریکا اور اس کے حلیفوں بشمول جنوبی کوریا نے انہیں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
شمالی کوریا کے ’طاقتور ترین‘ میزائل تجربے پر عالمی تشویش
ان قراردادوں کے تحت شمالی کوریا پر ایسی ٹیکنالوجی کے حصول اور پروڈکشن پر پابندی ہے، جو بیلسٹک میزائل سازی میں استعمال ہو سکتی ہے۔
شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس کا خلائی پروگرام اور دفاعی سرگرمیوں کا سلسلہ اس کا جغرافیائی حق ہے اور اس میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
ع ح/ ع ا (روئٹرز)