1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعتماد کے ووٹ کی تلوار

16 جنوری 2023

اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے صدر عارف علوی کے بیان نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر ارتعاش پیدا کر دیا ہے اور ملک میں سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔

Pakistan Shabaz Sharif
تصویر: picture alliance/dpaEPA/PMLN

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بیان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے سر پر اعتماد کے ووٹ کی تلوار لٹکتی رہے گی، جس سے ملک میں مزید سیاسی بے یقینی بڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہفتے کو عارف علوی نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں محسوس ہوا کہ وزیر اعظم کے پاس اکثریت نہیں ہے تو وہ ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

عارف علوی نے یہ بھی کہا تھا کہ قبل از وقت انتخابات ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ جمعہ کو سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی ہم نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ اس آپشن پر سوچ رہے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف سے کہا جائے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھی اس آپشن کا اشارہ اے آر وائی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا جب کہ ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے بھی اپنے ایک بیان میں یہ واضح کیا تھا کہ اگر صدر اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیں گے تو وزیراعظم ووٹ لیں گے۔

 سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ان بیانات کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھتا جا رہا ہے اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کا تاریخی پس منظر

تلوار لٹک رہی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈز سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتماد کے ووٹ کی تلوار اب شہباز شریف کے سر پر لٹک رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات کا فیصلہ ہو گیا ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ حکومت خود بخود گر جائے گی کیونکہ ملک ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایل سی رکی ہوئی ہیں۔ بہت ساری اشیاء کی قلت شروع ہوگئی ہے۔ تو ایسے میں لگتا ہے یہ خود بھاگ جائیں گے۔‘‘

صدر عارف علوی وزیر اعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیںتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/IMAGO

پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جہاں شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایسی صورتحال میں ضروری نہیں کہ انہیں تحریک انصاف ہی نقصان پہنچائے،  یہ بھی تو ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون کے کچھ ارکان اسمبلی رائے شماری کے دن حاظر نہ ہوں۔‘‘

جی ایچ کیو پر دباؤ کی کوشش

 موجودہ حکومت کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسے ملک کی طاقت ور فوج کی حمایت حاصل ہے، جو ملک میں معاشی استحکام چاہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھائے بغیر پی ڈی ایم کی حکومت کو ہلایا نہیں جا سکتا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت، عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات پنڈی پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان کا بنیادی مقصد صرف پنڈی پر دباؤ بڑھانا ہے۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ ان سے رابطہ کرنا نہیں چاہ رہی اور عمران خان کی کوشش ہے کہ وہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طرف متوجہ کریں۔ جی ایچ کیو ملک کی معاشی صورتحال پر بہت پریشان ہے۔ اگر عمران خان عارف علویکو کہتے ہیں کہ وہ شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں، تو اس سے ملک کی اسٹاک ایکسچینجیز اور مارکیٹ میں کھلبلی مچ  جائے گی۔ سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوگا، جس سے یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ پریشان ہوگی اور ممکنہ طورپر وہ قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور ہو جائے گی۔‘‘

فوری طور پر عام انتخابات منعقد کروائے جائیں، عمران خان

اعتماد کا ووٹ لینے کے بیانات کے بعد مسلم لیگ نون کی طرف سے یہ اعلان ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں میں رپورٹ ہوا کہ مریم نواز شریف ممکنہ طور پر اسی مہینے پاکستان واپس پہنچ سکتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ نواز شریف نے پنجاب میں پارٹی کارکنوں کو انتخابات کی تیاری کا کہہ دیا ہے۔ نون لیگ کے ان بیانات سے بھی کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شہباز شریف کے سر پر اعتماد کے ووٹ کی تلوار لٹک رہی ہے، جس سے کسی وقت بھی انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔

عارف علوی پاکستان کے 13ویں صدر منتخب ہو گئے

’عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں‘تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

اتحادیوں کے رحم وکرم پر

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار الطاف بشارت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت پہلے ہی اتحادیوں پر انحصار کر رہی تھی اور اب عارف علوی کے بیان کے بعد یہ انحصار مزید بڑھ جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' حکومت اتحادیوں کی محتاج رہے گی۔ ان میں سے کچھ ایسے اتحادی ہیں جو ممکنہ طور پر حکومت کو نہیں چھوڑیں گے لیکن کچھ کے بارے میں پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔‘‘

حکومت نہیں جارہی

تاہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار محمد داؤد  کاکڑ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلوچستان سے بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کی اتحادی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک نون لیگ اور دوسرا حصہ پی پی پی کے ساتھ ہے لیکن دونوں حصوں میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں موجودہ حکومت کی حمایت کریں گے کیونکہ انتخابات قریب ہیں اور انتخابات سے پہلے علاقے میں ترقیاتی کام کرانا ہوتے ہیں، جو حکومت میں رہتے ہوئے ہی ہو سکتے ہیں۔‘‘

ایم کیوایم کے سابق رہنما اور سابق صوبائی وزیر برائے آئی ٹی رضا ہارون کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایم کیو ایم پہلے ہی پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کر چکی ہے اور اب اگر وہ ن لیگ سے بھی اتحاد ختم کرتی ہے، تو پھر اس کو کیا فائدہ ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات سے وہ پہلے ہی آؤٹ ہو گئے ہیں۔ تو ان کو حکومت میں ٹکنا ہی پڑے گا۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں