کیا طلبا و طالبات کو علیحدہ کرنا غلط فیصلہ ہے؟
26 دسمبر 2017پاکستانی میڈیا میں شائع ہونی والی رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی نے یہ نوٹیفیکیشن اس ماہ کے آغاز میں جاری کیا تھا جس کے تحت لڑکیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، سگریٹ پینے، ہوسٹل اور یونیورسٹی کی عمارتوں کی چھتوں پر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا کے کئی صارفین نے یونیورسٹی کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ نے اس فیصلے کے خلاف اپنے اداریے میں لکھا ہے،’’ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کم ملنے سے طلبا کے وقت کا ضیاع نہیں ہوگا، یہ ایک غیر عقلی فیصلہ ہے۔ طلبا اور طالبات اور اساتذہ کے مابین گفتگو اور میل جول سیکھنے کے عمل کے لیے ضروری ہے۔‘‘ ڈان کے اداریے میں مزید لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں ’اخلاقی پولیسینگ‘ ایک خطرناک رجحان ہے جو کہ ایک روشن خیال تعلیمی ماحول کے پنپنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس باچا خان یونیورسٹی پر عسکریت پسندوں نے حملہ کر دیا تھا جس میں کئی طلبا ہلاک ہو گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اس حملے کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ کو خیال رکھنا چاہیے کہ یہاں برادشت اور روشن خیالی فروغ پائے نا کہ عسکریت پسندوں کی سوچ کا پرچار کیا جائے۔
سوشل میڈیا کے سدھیر نامی ایک صارف نے لکھا،’’ یہ طلبا و طالبات عاقل اور بالغ ہیں اور صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے ایسے احکامات جاری کرنا سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
ٹوئٹر کے ایک صارف فیصل تنولی نے لکھا،’’ پورے زور سے اسلامائزیشن کا نفاذ‘‘۔
کچھ صارفین نے اس اقدام کی تائید کی۔ خان احمد خان نے لکھا،'' یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ خیبر پختونخواہ جیسے قدامت پسند صوبے میں اب اس فیصلے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجنے پر رضا مند ہو جائیں گے۔‘‘