کیا شکست کے بعد اسلامک اسٹیٹ کا وجود ختم ہو گیا؟: تبصرہ
17 مارچ 2019
اسلامک اسٹیٹ اب اپنے زیرقبضہ تمام علاقے کھو چکی ہے، مگر تبصرہ نگاہ رائنر ہیرمان کے مطابق یہ سمجھنا قبل ازوقت ہو گا کہ جہادی سوچ اور کارروائیاں اس پیش رفت سے ختم ہو جائیں گی۔
اشتہار
خودساختہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی شکست سے قریب ہے۔ عسکری طور پر دیکھا جائے تو بین الاقوامی برادری کے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات اس تنظیم کی شکست کی وجہ ہیں۔ تاہم یہ سوچنا ایک بے وقوفانہ عمل ہو گا کہ اسلامک اسٹیٹ کے زیرقبضہ آخری ٹھکانے کی آزادی کے بعد تمام چیزیں معمول کی طرف لوٹ جائیں گی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اس بارے میں محتاط رہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہادی سلفی ازم، اس دہشت گردانہ نظریہ کے پس پردہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام قدامت پسند سلفی نظریات کے حامل افراد دہشت گرد ہیں، کیوں کہ بہت سے سلفی پرامن زندگی گزار رہے ہیں، تاہم ایسے افراد اب بھی موجود ہیں، جو تشدد کے ذریعے دنیا پر مسلمانوں کے راج پر یقین رکھتے ہیں۔
عسکری طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ ممکنہ طور پر اب اپنے مکمل زوال کے قریب ہے، مگر نظریاتی طور پر ایسا نہیں۔ عسکریت پسند سلفی نظریات کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قریب تیس ہزار جنگجو پچھلے دو برسوں میں روپوش ہو چکے ہیں۔
ان میں سے کچھ تو یقیناﹰ اپنے گھروں کو لوٹ کر ایک عمومی زندگی شروع کرنے کے خواہاں ہوں گے، مگر کچھ ایسے بھی ہوں گے، جو ایک نئے موقع کی تلاش میں رہیں گے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندی کا راستہ چن سکیں۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہے کہ اگر شام میں اس تنظیم کے خلاف لڑنے والی فورسز اگر یہ علاقہ خالی کرتیں ہیں، تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا عسکری خلا یہ جہادی پُر کر سکتے ہیں۔ جہادیوں نے سن 2014ء میں ایسے ہی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
’’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس کی اتحادی تنظیموں سے متعلق اس سے قبل بھی نادرست اندازے لگائے جاتے رہے ہیں، سن 2008ء میں اسلامک اسٹیٹ کی شکست اور اس کے جہادیوں کے روپوش ہو جانے کے بعد بہت کم افراد یہ سمجھتے تھے کہ یہ تنظیم اچانک اتنی مضبوط ہو جائے گی۔
2014ء: مشرق وسطیٰ کے لیے ناقابل فراموش سال
شام کی خانہ جنگی، اسلامک اسٹیٹ کا پھیلاؤ اور غزہ جنگ۔ رواں برس مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل کی اور مسلسل شہ سرخیوں کا سبب بنے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
آئی ایس کی پیش قدمی
انتہا پسند تنظیم آئی ایس 2013ء ہی میں شام کے شہر رقعہ میں اپنے قدم جما چکی تھی۔ جنوری میں یہ تنظیم عراقی شہر فلوجہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب یہ تنظیم عراقی صوبہ انبار تک پہنچ چکی ہے اور بغداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters
ایران کا جوہری تنازعہ
ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بعد جنوری میں امریکا اور یورپی یونین نے تہران حکومت کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ کئی معاملات پر اتفاق کے باوجود مغربی ممالک اور ایران نتیجہ خیز مذاکرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ مذاکرات آئندہ برس بھی جاری رہیں گے۔
تصویر: Kazem Ghane/AFP/Getty Images
مصر میں بڑے پیمانے پر سزائیں
رواں برس مصری عدلیہ نے ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعت اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس کے فوراﹰ بعد اخوان المسلمون کے 529 کارکنوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح اپریل میں ایک اور عدالتی فیصلے کے تحت مزید 683 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ بعدازاں ان میں سے زیادہ تر کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کر دی گئیں۔
تصویر: Ahmed Gamil/AFP/Getty Images
عراق میں اقتدار کی تبدیلی
عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پہلی مرتبہ اپریل میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اگست میں نوری المالکی کی جگہ انہی کی جماعت کے حیدر العبادی نے سنبھالی۔ المالکی کی حکومت میں ملک کے سُنیوں اور شیعیوں کے مابین اختلافات عروج پر پہنچ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/Hadi Mizban
شام کی خانہ جنگی
امن کے لیے مسلسل دو برس کوششیں کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخضر براہیمی نے مئی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے فوراﹰ بعد صدر بشار الاسد نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا اور انہیں تقریباﹰ 89 فیصد ووٹ ملنے کی تصدیق کی گئی۔ تاہم ووٹ صرف انہی علاقوں میں ڈالے گئے، جو حکومتی فوجیوں کے زیر کنٹرول تھے۔
تصویر: Reuters
مصر میں فوج کی واپسی
سابق آرمی چیف عبد الفتاح السیسی نے صدارتی انتخابات بڑی اکثریت کے ساتھ جیتنے کا دعویٰ کیا۔ ان کے واحد حریف امیدوار حمدین صباحی کو صرف تین فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ جون میں السیسی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مصر کے پہلے جمہوری اور معزول صدر محمد مرسی ابھی تک جیل میں قید ہیں۔
تصویر: Reuters
الفتح اور حماس کا اتحاد
سن 2007ء میں الفتح اور حماس کے مابین علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ دونوں جماعتوں نے متحدہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے صدر محمود عباس پر امن مذاکرات کی بجائے حماس سے شراکت داری کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔
تصویر: DW/K. Shuttleworth
جنگ کے 50 دن
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صورت حال کشیدہ رہی۔ آٹھ جولائی کو اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ اسرائیل نے اس کا مقصد حماس کی طرف سے راکٹ فائر ہونے کے سلسلے کا خاتمہ کرنا بتایا۔ اس پچاس دن کی جنگ میں 2100 سے زائد فلسطینی ہلاک جبکہ تقریبا 70 اسرائیلی مارے گئے۔ غزہ میں کئی منزلہ تقریبا 20 ہزار رہائشی گھر تباہ کر دیے گئے۔
تصویر: Reuters
لیبیا دلدل میں
رواں برس لیبیا میں حریف گروپوں کی لڑائی نے ایک مرتبہ پھر لیبیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ طرابلس کے مد مقابل تبروک شہر میں ایک نئی پارلیمان کا وجود سامنے آیا۔ تب سے دونوں پارلیمانوں میں سیاسی خود مختاری کی جنگ جاری ہے۔ تاہم طرابلس کی پرانی پارلیمان نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
تیونس میں اقتدار
تیونس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابت میں سیکولر قوتیں مذہبی جماعتوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے 217 میں سے 85 سیٹیں حاصل کیں جبکہ مذہبی جماعت النہدہ کو 69 نشستیں ملیں۔ سیکولر اتحاد نے ان انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/Zoubeir Souissi
اپنی بقاء کی جنگ
موت اور تباہی کے خوف سے نقل مکانی کرنے والے شامی مہاجرین اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب یہ مہاجرین موسم سرما ایسے ایک نئے امتحان کے سامنے کھڑے ہیں۔ شام کے تیس لاکھ مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
11 تصاویر1 | 11
صرف تین برس بعد ہی اس کے رہنما نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھا اور ایک نئے ماحول اور ترتیب کے ساتھ سامنے آ گیا اور اپنی تنظیم کو یک جا کر دیا۔ اس بار بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ عسکریت پسند ایک روایتی گوریلا جنگ شروع کر سکتے ہیں، اپنے دہشت گردانہ حملے جاری رکھ سکتے ہیں اور خوف کی فضا قائم رکھ سکتے ہیں۔ اور وہ مغربی دنیا کو دہشت زدہ کرنے کی کارروائیاں بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کا فقط ایک موثر طریقہ ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے حالات مہیا کیے جائیں۔ انہیں بولنے کا حق دیا جائے اور ان کے ساتھ مناسب انداز سے پیش آیا جائے۔ دوسری صورت میں کسی اچھے مستقبل کے خواب کے بغیر نوجوان شدت پسندی اور دہشت گردی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ علاقے کی آزادی اس جہت میں پہلا قدم ہے، کیوں کہ اب اس علاقے کے پریشان حال نوجوان ایک خودساختہ خلافت میں ’اسلامی زندگی‘ گزارنے پر مجبور نہیں ہو پائیں گے۔