کیا عمران خان کی خواہش پوری ہو گی؟ سوشل میڈیا سے سنیئے!
11 اپریل 2016پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے۔ اتوار کے دن اپنی رہائش گاہ سے اپنے ایک عوامی خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس کمیشن میں ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ چوبیس اپریل تک ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے مناسب کارروائی شروع کر دی جائے۔
عمران خان نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دے رکھی ہے کہ وہ رائیونڈ میں واقع نواز شریف کے گھر کے باہر دھرنا بھی دے سکتے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عمران خان کے ایسے مطالبات مسترد کر دیے ہیں کہ وہ وزارت عظمی کے عہدے کو خیر باد کہہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے۔
اس تناظر میں سوشل میڈیا پر عوام، صحافی، سیاسی پارٹیوں کے اہلکار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
حکمران سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ نون کے سیاستدان اور پنجاب کے وزیر قانون رانا اثنا اللہ نے ایک مقامی ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے بھارتی خفیہ ادارے RAW کو فائدہ ہو رہا ہے۔
حکمران جماعت کے دیگر ارکان نے بھی کہا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان بے قصور ہے اور وہ استعفی نہیں دیں گے۔ البتہ وہ پاناما پیپرز کے انکشافات پر تحقیقات کے لیے تیار دیکھائی دتے ہیں۔
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے خواجہ سعد رفیق نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کسی میں ہمت نہیں کہ وہ رائیونڈ میں جا کر دھرنا دے۔ اس تناظر میں انہوں نے کچھ متنازعہ الفاظ کا استعمال بھی کیا۔
خواجہ سعد رفیق نے ایک ٹوئٹ میں یہ دھمکی بھی دی۔
سعد رفیق نے عمران خان کی پریس کانفرنس کا مذاق بھی اڑایا۔ یہ ٹوئٹ ملاحظہ کریں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے ساتھ بھرپور ہمدردری کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ابرار الحق نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے پاناما پیپرز پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا۔
اطلاعات ہیں کہ عمران خان میڈیا سے گفتگو میں اپنے موقف کو مزید واضح کرنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد اس موضوع پر مزید بحث بھی کریں گے۔