کیا ’عوامی فیصلے‘ کے بعد عمران خان رہا ہو سکتے ہیں؟
11 فروری 2024ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور نومنتخب رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملکی انتخابات کے نتائج سے مقتدر حلقوں اور عدلیہ تک واضح پیغام پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام نے کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ جبر اور نا انصافیوں کے خلاف ووٹ دیا ہے: ''اب عمران خان کے خلاف ناجائز طور پر بنائے گئے مقدمات ختم ہونے چاہییں اور انہیں فوری طور پر رہائی ملنی چاہیے تاکہ وہ جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہوئے ملکی مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہونگے، پارلیمنٹ نہیں چل سکے گی اور ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔‘‘
آزاد امیدوار 101 نشستوں کے ساتھ سرفہرست
اسلام آباد: اقتدار کے لیے جوڑ توڑ اور سیاسی مشاورتیں
ایک سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان ریاستی سربراہ ہیں وہ آئین کے تحت کسی کی بھی سزا معاف کر سکتے ہیں: 'اگر اصلاح احوال چاہتے ہیں تو عمران خان کی رہائی کی کارروائی فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے۔ عدلیہ اور اداروں کو ریاست اور آئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور قانون کی بالا دستی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
یاد رہے پاکستان میں این آر او کے ذریعے سیاست دانوں کی سزائیں معاف کرنے کی روایت موجود ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹو سمیت بہت سے سیاست دانوں کی سزائیں معاف کی گئی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ڈیل کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی متعدد مقدمات میں بریت حاصل ہو چکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان کا نظام عدل عوام کی آواز سن کر انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے۔ اور عمران خان کو رہائی نہ مل سکے: ''ہمارے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے، ہمیں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، 342 کا بیان ریکارڈ کیے بغیر سزائیں سنا دی گئیں، ہمارے وکیلوں کو باہر نکال دیا جاتا رہا۔ یہ صورت حال اب جاری نہیں رہ سکتی۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ جتنی تیزی سے سزائیں سنائی گئیں تھیں اتنی تیزی کے ساتھ غلطیاں درست بھی ہونی چاہییں۔‘‘
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں کی قید نے بھی ثابت کیا ہے کہ عمران خان ایک مضبوط آدمی ہیں اور وہ کسی ڈیل یا چور دروازے سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا، ''ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے ایک ڈیل ہوتی ہے اور پھر عدالتوں سے لوگوں کو مطلوبہ ریلیف ملتا ہے۔ نیب اپنے الزام واپس لے لیتا ہے، پراسیکیوٹرز بھی مقدمات میں ایسی پوزیشن لیتے ہیں کہ عدالتوں کو انہیں رہا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول عمران خان ملک اور عوام کے خلاف کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہوں گے۔‘‘
ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے عوامی (انتخابی) فیصلے سے ہر ادارہ متاثر ہوتا ہے اور عوام کی اتنی بڑی اکثریت کی رائے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے: ''پاکستان جیسے ملک میں چہرے اور حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ اب الیکشن سے پہلے کی طرح کی صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی والے اب چپ کر کے نہیں بیٹھیں گے اور ان کے دباؤ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آہستہ اہستہ صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی لیکن عمران خان کی رہائی میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بابر سہیل نے بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کیا کہ وہ تمام مقدمات جو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر جلد بازی میں بنائے گئے تھے وہ عدالت کے سامنے برقرار نہیں رکھے جا سکیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں بابر سہیل نے بتایا کہ پاکستان میں بڑے عرصے بعد یوں لگا ہے کہ بیلٹ کو بُلٹ پر برتری ملی ہے اور ساری مشکلات کے باوجود عوام کا ووٹ بیلٹ بکس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ہے: ''اب مصنوعی ڈیزائننگ زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی ووٹرز نے بڑی میچورٹی کا مظاہرہ کیا ہے اب ان کی آواز سننی پڑے گی۔ 2013ء میں چار حلقوں کی دھاندلی نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا اب 60 حلقے کیسے ہضم ہو سکیں گے۔ اب سب کو ڈائیلاگ کی طرف آنا ہوگا اگر بات چیت شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں عمران خان کو ریلیف ضرور ملے گا۔‘‘