1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا عوام یہی دیکھنا چاہتی ہے؟

23 جون 2023

آج بھی پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کی رسائی بہت زیادہ ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 76 فیصد سے زیادہ عوام باقاعدگی سے ٹی وی دیکھتی ہے۔ آگاہی پھیلانے کے لیے دنیا بھر میں ٹی وی سب سے موثر ذریعہ تصور ہوتا ہے۔

تصویر: Privat

پی ٹی وی کے کلاسک ڈرامے آج تک بے حد پزیرائی سمیٹ رہے ہیں۔ سبق آموز، تفریح سے بھرپور ڈرامے جو با مقصد موضوعات پر بنائے جاتے تھے۔ 1985ء میں دکھایا جانے والا ایک ڈرامہ تنہایاں آج بھی لوگوں کے پسندیدہ ڈراموں میں سے ایک ہے۔ یہ بہت مضبوط اور بااعتماد دو بہنوں کی کہانی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو ان دونوں بہنوں میں کوئی جلن دکھائی گئی اور نہ ہی خاندانی سیاست۔ انہیں مارا پیٹا بھی نہیں گیا اور نہ ہی غیر ازدواجی تعلقات موضوع بنے۔

یعنی آج سے تقریباً چالیس سال پہلے کی عوام بھی مضبوط کردار اور معیاری کہانیاں سراہنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور آج بھی ان ڈراموں کی تلاش میں رہتی ہے۔ اسی طرح اسی دور کا ایک اور ڈرامہ ان کہی بھی مقبول ترین ڈراموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی مصنفہ بھی حسینہ معین صاحبہ ہیں اور ان کی اس رومانوی اور مزاحیہ کہانی کے کردار ناقابل فراموش ہیں۔  

خدا کی بستی، دھوپ کنارے، ستارہ اور مہرا نساء، وارث، دشت جیسے ڈراموں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ان سب ڈراموں میں مہذب گفتگو، معیار اور پاکستانی اقدار مشترک تھیں۔ مزاح کی بات کریں تو ففٹی ففٹی، خواجہ اینڈ سنز، تعلیم بالغاں، آنگن ٹیڑھا آج بھی دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ان میں مزاح کے نام پر گھٹیا لطیفے پیش نہیں کیے گئے تھے۔ 80 اور 90 کی دہائی میں آنے والے بہت سے مزاحیہ پروگرام بھی آج تک بہت مقبول ہیں۔ گیسٹ ہاؤس، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، آشیانہ، جنجال پورہ وغیره کے کردار بہت سے اداکاروں کی تاحیات پہچان بنے۔

سن 2000 میں پرائیوٹ چینلز کو باقاعدہ اجازت ملی اور انڈس ٹی وی نیٹ ورک سے اس کا آغاز ہوا۔ ساتھ ہی بہت سے كيبل آپریٹر نے ہمسایہ ملک کے کچھ چینل نشر کرنا شروع  کیے۔ سٹار پلس ایک نمایاں انتخاب رہا۔ آہستہ آہستہ پرائیوٹ چینلز کی بھرمار ہو گئی۔ عوام کو زياده تفریح کے مواقع اور انتخاب کا حق دینے میں تو بہرحال کوئی حرج نہیں ہے مگر اس بھرمار نے ہمارے اپنے پروگرام اور ڈراموں کے معیار کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

اب ہماری کہانیوں میں بھی وہ سنسنی خیز خاندانی سیاست، ساس بہو کے جھگڑے، دیورانی جیٹھانی اور بہنوں کی جلن، دوسری شادی، طلاق اور غیر ازدواجی تعلقات کے موضوعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈرامہ نویس سے پروڈکشن ہاؤس تک جس سے پوچھیں وہ یہی جواب دیں گے کہ عوام یہی دیکھنا چاہتی ہے۔ یعنی جو عوام آج سے چالیس پچاس سال پہلے سلجھے ہوئے موضوعات اور مضبوط کردار کو سراہنے کی صلاحیت رکھتی تھی آج اتنی ترقی اور جدت کے بعد انتخاب کے معاملے میں اس قدر پست ہو رہی ہے؟ جب پاکستانی ڈرامے ساری دنیا میں مقبولیت رکھتے ہیں اور مختلف زبانوں میں ڈبنگ کے ساتھ نشر  کیے جاتے ہیں تو ہمیں ہمسایہ ملک کے ان ڈراموں کی اندھی تقلید کرنے کی ضرورت کیوں کر پیش آ رہی ہے، جو پوری پوری قسط صرف اس سوال میں گزار دیتے ہیں کہ رسوئی (باورچی خانے) میں کون تھا اور چولہے پر ہنڈیا کس نے چڑھائی تھی؟ 

میڈیا بہت طاقت رکھتا ہے۔ یہ کردار سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور لوگوں کی سوچ اور انتخاب پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اگر مسلسل ایک ہی جیسے موضوعات پر کہانیاں دکھائی جائیں تو لوگوں کی سوچ بھی ویسے ہی تبدیل ہونے لگتی ہے۔ ایسی ہی کہانیوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی زیادہ تر بچیاں شادی کو زندگی کا واحد مقصد سمجھتی ہیں۔ ہم آج بھی اچھی اور بری عورت کی تعریف میں الجھے بیٹھے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم آج بھی کمزور، روتی دھوتی اور مار کھاتی عورت کو صبر کی دیوی بنانے پر بضد ہیں۔ مردانگی کے بھی کوئی مافوق الفطرت معیار بنا رہے ہیں۔

بچوں کے لیے خصوصی نشریات کا اب بھی فقدان ہے۔ اتنے سالوں میں ہم صرف ایک سپر ہیرو  دے سکے، جو مثبت کام کر کے بچوں کے دل جیت لیتا تھا۔ عینک والا جن کئی سال تک ایک پسندیدہ کردار رہا۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی صبح کی نشریات کی جگہ شادیوں اور رنگ گورا کرنے والے والی کریموں پر مرکوز مارنگ شوز نے لے لی۔ اب ہمیں یہ شکایت بھی ہے کہ بچوں پر مغربی اقدار منفی اثر مرتب کر رہی ہیں اور وہ صرف فون اور ٹیبلٹ سے نکلتے ہی نہیں۔ 

گزشتہ دنوں ایک مشہور ڈرامہ نگار محمد احمد صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب تک عورت کو مار پڑ رہی تو ڈرامے کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ وہی عورت مارنے والے کا ہاتھ روک لے یا اپنے لیے اٹھ کھڑی ہو تو ریٹنگ گر جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیا مضبوط کردار اور معیاری کہانیوں کو سراہنے والی عوام کی سوچ میں اس قدر تبدیلی آرہی ہے؟ یہ تو يقيناً لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کیا دکھا رہے اور کیا سکھا رہے ہیں؟ 

 اس کے برعکس آج بھی جب کبھی الف، شہر ذات، پری زاد، داستان اور کچھ ان کہی جیسے ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں تو بہت مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ حال ہی میں سرراہ ایک نہایت بامقصد ڈرامہ دکھایا گیا۔ اور ہر قسط میں ایک معاشرتی پہلو اجاگر کیا گیا اور عوام میں بہت مقبول بھی ہوا۔

ہزاروں چینلز میں کہیں نہ کہیں مثبت ڈرامے اور رمضان سیریز وغیرہ کبھی کبھار دیکھنے کو ملتی ہیں مگر نمایاں چیلنز پر جہاں بڑے بجٹ کے ڈرامے، مقبول کاسٹ کے ساتھ پرائم ٹائم پر دکھائے جاتے ہیں وہاں بامقصد موضوعات پر توجہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ خاندانی ڈرامے جو ہمیشہ سے ہماری پہچان رہے اور دنیا بھر میں مقبول ہوتے ہیں تو یہ کہنا غلط ہے کہ عوام صرف ساس بہو کی لڑائی اور روتی مار کھاتی عورت ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ وہی عوام ہے، جو دھوپ کنارے اور تنہایاں کے مضبوط کردار قبول کرنے کی صلاحیت آج سے کئی دہائیوں پہلے سے رکھتی ہے اور آج بھی مختلف کہانیوں، مثبت کرداوں کو پسند کرتی ہے۔ 

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ملک کی ایک بہت بڑی صنعت ہے، جو فنون لطیفہ کے ذریعے تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں تعلیم ایک مسئلہ ہے۔ ٹی وی جیسے ذریعہ تفریح کو بہت مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنا طرز، پہچان اور معیار قائم رکھتے ہوئے مثبت سوچ اور سلجھاؤ پر توجہ مرکوز رکھنا بہت ضروری ہے۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں