1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

کیا غزہ کا بحران بائیڈن کے صدارتی امکانا ت کو متاثر کرے گا؟

28 فروری 2024

ایسا لگتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اور بائیڈن ایک بار پھر آنے سامنے ہوں گے۔ البتہ مشیگن کی عرب امریکی کمیونٹی نے غزہ جنگ سے متعلق صدر جو بائیڈن کی پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

مشیگن عرب برادری کے لوگ
کچھ عرب نژاد امریکی ووٹروں نے بائیڈن کی جانب سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر مایوسی کا حوالہ دیتے ہوئے، خبر رساں ایجنسیوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ بطور احتجاج ٹرمپ کو ووٹ دیں گےتصویر: Mostafa Bassim/Anadolu/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز ریاست مشیگن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی جبکہ سابق صدر ٹرمپ ساؤتھ کیرولائنا میں ریپبلکن پرائمری جیتنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح اب اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ سن 2020 کی طرح ہی اس برس بھی نومبر کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن اور ڈونلڈ ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔

اسرائیل۔ حماس: صدر بائیڈن کو اگلے ہفتے تک جنگ بندی کی امید

تاہم مشیگن میں عرب نژاد امریکی کمیونٹی کی ایک مہم 'لیسن ٹو مشیگن' نے موجودہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے اور غزہ کی جنگ سے متعلق ان کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج کہا ہے کہ وہ ان کے لیے اب ووٹ دینے کے ''پابند نہیں'' ہیں۔

یمنی حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکہ اور برطانیہ کےحملوں کی نئی لہر

 واضح رہے کہ یہ عرب برادری امریکہ میں سب سے بڑی عرب-امریکی برادریوں میں سے ایک ہے۔

امریکہ میں ای بکس پر پبلشرز اور لائبریریوں کے درمیان تنازعہ

'مشیگن کو سنیں' مہم کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

'لیسن ٹو مشیگن' نامی مہم کی تشہیر فلسطینی نژاد امریکی کانگریس کی رکن خاتون راشدہ طلیب نے وسیع پیمانے پر شروع کر رکھی ہے، جس کا مقصد بائیڈن انتظامیہ کو ایک پیغام دینا ہے۔

غزہ سیزفائر قرارداد: امریکی ویٹو کے بعد اسرائیلی حملے جاری

اس مہم کے حامی دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر صدر جو بائیڈن جنگ سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے، تو وہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے دوران سوئنگ اسٹیٹ میں بائیڈن کے لیے ووٹ نہیں کریں گے۔

لیسن میؤکن مہم کے حامی دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر صدر جو بائیڈن جنگ سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے، تو وہ سوئنگ اسٹیٹ میں بائیڈن کے لیے ووٹ نہیں کریں گےتصویر: Evan Vucci/AP/picture alliance

واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے سن 2020 کے انتخابات میں مشیگن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف 2.8 فیصد پوائنٹس سے شکست دی تھی۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کی امیدیں موہوم

طلیب نے کہا، ''مشیگن میں 74 فیصد ڈیموکریٹس جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، پھر بھی صدر جو بائیڈن ہماری بات نہیں سن رہے ہیں، تو ہم اپنی جمہوریت کو یہ کہنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ 'سنو۔۔۔۔ مشیگن کی سنو۔''

پرائمری پولنگ کے فوری بعد اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جس گروہ نے ووٹ کے لیے ''پابند نہ ہونے'' کی بات کہی ہے، اس کے تقریباً 19,000 بیلٹ تھے۔

حماس اسرائیل کے ساتھ یرغمالیوں کی ڈیل جلد از جلد مکمل کرے، صدر عباس

کچھ عرب نژاد امریکی ووٹروں نے بائیڈن کی جانب سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر مایوسی کا حوالہ دیتے ہوئے، خبر رساں ایجنسیوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ بطور احتجاج ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔

ریپبلکن پرائمری میں ٹرمپ کا غلبہ برقرار

ادھر ریپبلکن پرائمری انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا تسلط برقرار ہے اور انہیں بیشتر ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ہفتے کے روز انہوں نے اپنی سرکردہ ریپبلکن امیدوار نکی ہیلی کو ان کی آبائی ریاست جنوبی کیرولینا میں شکست دی تھی۔

البتہ ہیلی نے اعتدال پسند اور کالج کے تعلیم یافتہ ووٹرز کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا، جہاں ٹرمپ کو ووٹ جمع کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔

ہیلی کی انتخابی مہم کی ترجمان اولیویا پیریز کیوباس نے کہا کہ مشیگن کے نتائج ''نومبر میں ٹرمپ کے لیے ایک انتباہی اشارہ'' ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''اسے ایک اور انتباہی علامت سمجھنا چاہیے کہ مشیگن میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ پورے ملک میں جاری رہے گا۔ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ ٹکٹ کی دوڑ میں سرفہرست رہیں گے، ریپبلکن سوشلسٹ بائیں بازو سے ہارتے رہیں گے۔ ہمارے بچے اس سے بہتر کے مستحق ہیں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز) 

پوٹن کا دورہ چین، سیاق و سباق کیا ہیں؟

02:17

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں