نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا بھر میں موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن (5G) متعارف کروانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جانیے موبائل فون سے نکلنے والی شعاعوں کے انسانی اور خاص طور پر بچوں کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اشتہار
موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن یعنی فائیو جی میں ہائی فریکوئنسی اور بینڈ ویتھ استعمال کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے صارفین ماضی کے مقابلے میں کئی گنا تیزی سے ڈیٹا ڈاؤن لوڈ اور اپ لوڈ کر سکیں گے۔ اس ٹیکنالوجی سے فی سیکنڈ دس گیگا بائٹ منتقل ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک جی نیٹس کے لیے سات سو میگا ہرٹس سے چھ گیگا ہرٹس کی فریکوئنسیاں استعمال کی جا رہی تھیں لیکن اب فائیو جی میں اٹھائیس سے ایک سو گیگاہرٹس کے درمیان فریکوئنسیاں استعمال کی جائیں گئی۔ موازنہ کرنے کی صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ فور جی انٹرنیٹ تھری جی سے دس گناہ زیادہ تیز تھا لیکن فائیو جی فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرے گا۔ سویڈن کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ایریکسن کے اندازوں کے مطابق سن دو ہزار چوبیس میں دنیا کی چالیس فیصد آبادی فائیو جی ٹیکنالوجی استعمال کرے گی۔
کیا ہمیں فکرمند ہونا چاہیے؟
حال ہی میں دنیا بھر سے تقریباﹰ دو سو پچاس سائنسدانوں نے اقوام متحدہ میں ایک پیٹیسشن دائر کی تھی، جس پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس میں ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو انٹینا سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان (ای ایم ایف) پیدا کرتی ہیں، جن سے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’اس کے اثرات میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، سیلولر اسٹریس، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی ساخت اور فعال میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کے عمل میں کمزروی شامل ہیں۔‘‘ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ موبائل سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی رویے کے ساتھ ساتھ اعصابی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔
ٹو جی، تھری جی اور فور جی سے متعلق ہونے والے متعدد سائنسی مطالعے مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ برقی مقناطیسی میدان انسان کی صحت پر کیا اثرات چھوڑتے ہیں؟ ایسے مطالعات میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسمارٹ فونز کے سگنلز اسٹریس کے ساتھ ساتھ سپرمز، تولیدی نظام، انسانی دماغ میں برقی تبدیلیوں اور ڈی این اے کے لیے نقصان دے ہیں۔
سائنسدانوں کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ برقی مقناطیسی شعاعیں جانوروں اور پودوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ سارا ڈرائسن جرمنی کی مشہور آخن یونیورسٹی میں ’برقی مقناطیست اور ماحولیاتی مطابقت‘ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا ایک امریکی تحیقق کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چوہوں کو دو سال کے لیے دن میں تقریبا نو گھنٹے برقی مقناطیسی میدان کے زیر اثر رکھا گیا تھا۔ دو سال میں چوہوں کے اعصابی نظام، دماغ، دل اور تولیدی نظام میں تبدیلیاں پیدا ہو گئیں تھیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا، ’’اگر لہریں ملی میٹر میں اور زیادہ طاقتور ہوں گی جیسا کہ فائیو جی میں ہو رہا ہے، تو ابھی تک کی نسبت صورتحال مزید سنجیدہ ہو جائے گی۔‘‘ کچھ سائنسدان بچوں کو لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہیں۔ بچوں کی کھوپڑی چھوٹی ہونے اور اس کی ہڈیاں کمزور ہونے کہ وجہ سے ان شعاعوں کا ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔
دریں اثناء جرمنی میں ریڈی ایشن سے تحفظ کے وفاقی دفتر (بی ایف ایس) نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے انسانی صحت کے خلاف خطرات جاننے کے لیے بنیادی تحقیق کروانے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ اس ملک میں بھی جلد ہی یہ ٹیکنالوجی متعارف کروا دی جائے گی۔
موبائل فون کے 40 سال
موبائل فون اب روز مرہ معمولات کا لازمی جزُو بن چکا ہے۔ بہت سے افراد کے لیے تو اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے۔ موبائل فون کا چالیس سالہ سفر تصویروں کے آئینے میں
تصویر: Telekom
پہلا موبائل فون
موٹرولا کمپنی کے نائب صدر مارٹن کُوپَر نے 1973ء میں تجارتی بنیادوں پر استعمال کرنے والے پہلے دستی یا پورٹیبل موبائل فون کو متعارف کرایا۔ تاہمDyna TAC (Dynamic Adaptive Total Area Coverage) نامی یہ موبائل ٹیلیفون دس سال بعد یعنی 1983ء سے فروخت کے لیے دستیاب ہوا۔ ایک کلو کے قریب وزن کا یہ موبائل فون کافی مہنگا تھا اور اُس وقت اس کی قیمت تقریباً 400 امریکی ڈالر تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک مشکل آغاز
70 سال قبل کی بات کی جائے تو موبائل فون تقریباً 11 کلو وزنی ایک آلہ ہوا کرتا تھا، جس کی بہت ہی محدود علاقے تک رسائی تھی۔ فون کسی آپریٹر کی مدد سے ہی ملایا جا سکتا تھا، جواکثر ایک خاتون ہوا کرتی تھی۔ بہرحال محدود رسائی اور انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے صرف سیاستدان اور بڑے بڑے کاروباری افراد ہی موبائل فون جیسے اس آلے کے اخراجات برداشت کر پاتے تھے۔
تصویر: Museum für Kommunikation Frankfurt
پاکٹ یا جیبی سائز کا سیٹ
1989ء میں پہلا ایسا موبائل فون پیش کیا گیا، جسے آسانی سے جیب میں رکھا جاسکتا تھا۔ موٹرولا کمپنی کا مائیکرو ٹیک نامی موبائل اپنی نوعیت کا پہلا فلپ ’Flip ‘ ٹیلیفون بھی تھا۔ اس کے بعد موبائل ٹیلیفون کی دنیا میں چھوٹے اور عمدہ ٹیلیفون بنانے کی دوڑ کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمنی میں ’ ہڈی‘ کے نام مشہور
1992ء کے موسم گرما میں ڈجیٹل موبائل فون کا دور شروع ہوا۔ اب موبائل کے ذریعے بیرون ملک بھی رابطہ ممکن ہو گیا تھا۔ اس دوران ٹیکنالوجی میں بھی کافی پیش رفت ہو چکی تھی۔ موٹرولا کے 3200 انٹرنیشنل ٹیلیفون کو اس کے سائز کی وجہ سے جرمنی میں پیار سے ’کنوخن‘ یعنی ہڈی کا نام دیا گیا تھا۔ 2G کی صلاحیت والا یہ پہلا سیٹ تھا۔
تصویر: Telekom
مختصر پیغامات ’SMS‘ کا دور
1994ء سے موبائل کے ذریعے شارٹ میسج سروس ’ SMS‘ یا مختصر پیغامات بھیجنے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ سہولت صارفین کو رابطے یا تکنیکی خرابی کی صورت میں اطلاع دینے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا اور پیغام ترتیب دینے کے لیے صرف 160 الفاظ استمال کیے جا سکتے تھے۔ تاہم بہت جلد ہی ایس ایم ایس کو انتہائی پذیرائی حاصل ہو گئی
تصویر: DW/Brunsmann
بہت بڑے پیمانے پر موبائل فونز کی پیداور
1997ء کے بعد سے موبائل ٹیلیفونز کے بے تحاشا ماڈلز مارکیٹ میں دستیاب ہونے لگے۔ فولڈنگ اور سلائیڈنگ موبائل فون زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ ساتھ ہی کم قیمت سیٹس اور پری پیڈ کارڈز کی وجہ سے موبائل صنعت نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور پیداوار آسمان سے باتیں کرنے لگی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلا اسمارٹ فون
نوکیا نے 1999ء میں 7110 ماڈل متعارف کرایا۔ یہ وائرلیس اپیلیکیشن پروٹوکول ’ WAP ‘ کی سہولت والا پہلا موبائل فون تھا۔ اس طرح موبائل ٹیلیفون سے انٹرنیٹ کا رابطہ ممکن ہوا اور اسے موبائل فونز کی دنیا میں ایک انقلابی قدم قرار دیا۔
تصویر: imago
منی کمپیوٹر
موبائل فونز میں تکنیکی سطح پر ترقی کا ایسا دور شروع ہوا، جس میں آئے دن ایک نئی اختراع صارفین کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ کلر ڈسپلے، ایم پی تھری پلیئر، ریڈیو اور ویڈیو یہ ساری چیزیں موبائل فون کا حصہ بن گئیں۔ بہت جلد موبائل سیٹ پر ٹیلی وژن دیکھنا بھی ممکن ہو گیا۔
تصویر: Telekom
’فیشن فونز‘
کیمرے کی ساتھ موٹرولا کے RAZR سیٹ کو فیشن موبائل فون کا نام دیا گیا۔ 2004ء میں متعارف کرائے جانے والے اس موبائل فون کے 2006 ء کے وسط تک 50 ملین سے زائد یونٹس فروخت ہو چکے تھے۔ یہ فون تکنیکی اعتبار سے بہت زیادہ جدید نہیں تھا لیکن اس کے ڈیزائن نے صارفین کے لیے مقناطیس کا کام کیا۔
تصویر: Getty Images
ایک نیا دور
2007ء میں ایپل کے ٹچ اسکرین والے آئی فون نے موبائل فون کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا۔ یہ پہلا اسمارٹ فون تو نہیں تھا لیکن صارفین کے لیے انتہائی سہل ٹچ اسکرین اس کی وجہ شہرت بن گیا۔ اس میں نئی سے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: imago
مستقبل کے منصوبے
LTE ٹیکنالوجی کے ساتھ مزید استعداد والے موبائل فون کی چوتھی جنریشن بھی متعارف کرائی جا چکی ہے۔ اب کہیں سے بھی دیگر کمپیوٹر نظاموں سے منسلک رہنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ موبائل فونز کے ذریعے رقم کی منتقلی اور آنکھوں کی حرکت سے فون آپریٹ کرنا ممکن ہو چکا ہے۔ اسمارٹ فونز کی تکنیکی ترقی کا سفر رکا نہیں ہے اور ماہرین کے مطابق ابھی اسے بہت آگے جانا ہے۔