مورخین میں یہ بحث عرصہ دراز سے موجود ہے کہ آیا تاریخ قوموں کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ اس کا فیصلہ تو نہیں ہو سکا مگر اس استدالال کے دونوں فریقین اپنے موقف کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں۔ عام طور سے تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ اگر کوئی اس سے سبق سیکھنا چاہے تو وہ ماضی کی غلطیوں کو بار بار نہ دہرائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا یہ سبق حکمراں اور صاحب اقتدار طبقے کے لیے ہے کیونکہ وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ اس کا تعلق عوام سے نہیں ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ عوام کے لیے کسی تاریخی سبق کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حکمراں طبقوں کے لیے بھی اس وارننگ کے باوجود وہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے ہیں اور بار بار ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہتے ہیں۔ مثلاً سویڈن نے زار پیٹر کے زمانے میں روس پر حملہ کیا تھا، جو برفباری کی وجہ سے ناکام ہوا۔ 1812عیسوی میں نپولین نے روس پر حملہ کیا اور یہ بھی اس لیے ناکام ہوا کہ روس کی برفباری نے اسے فتح یاب نہیں ہونے دیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے بھی روس میں اپنی فوجیں بھیجیں مگر جرمن افواج بھی روسی برفباری میں شکست کا شکار ہوئیں۔ لہٰذا تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن سے قوموں نے سبق نہیں سیکھا اور انہیں بار بار دہرایا جاتا رہا۔ حکمراں طبقے اکثر تاریخ میں ہیروز سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکندر نے کیونکہ نوجوانی میں فتوحات حاصل کیں تھیں، اس لیے ہر جنرل خود کو اسکندر کی شکل میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ جولیس سیزر کہا کرتا تھا کہ اس کی عمر بڑھتی جا رہی ھے اور اس نے اب تک اسکندر کی طرح کوئی کارنامہ نہیں کیا ھے۔ جب سیزر نے اسکندریہ فتح کیا تو وہ خاص طور سے اسکندر کی قبر پر زیارت کے لیے گیا تھا۔ ہندوستان میں علاؤالدین خلجی نے خود کو اسکندر ثانی کہلوا کر اپنا رشتہ اسکندر سے ملانے کی کوشش کی تھی۔ ایرانی تاریخ می نوشیرواں عادل بڑا ہیرو رہا ھے۔ اس کی تقلید میں بہت سے مسلمان حکمرانوں نے عادل کا خطاب اختیار کر لیا تھا۔
تاریخ میں ایسے بہت سے حکمراں بھی گزرے ہیں، جو اپنے ظلم و ستم اور بدعنوانیوں کی وجہ سے بدنام تھے۔ جیسے رومی شہنشاہ کلی گُلا اور نیرو۔ لہٰذا تاریخ میں ایسے حکمرانوں کی مذمت کی جاتی ہے اور ان کا نام برائی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ یورپ کے عہدے وسطیٰ میں جب چرچ طاقتور ہوا تو تاریخ کو مذہب کی روشنی میں دیکھا جانے لگا۔ اب بادشاہوں کی جگہ مسیحی اولیا نے لے لی۔ ولی فرانسیسی اور اگناشیس لوٹے لا کی تقلید کی جانے لگی۔ تاریخ حکمراں طبقوں کے لیے ان نصیحتیوں کا ایک اہم ذریہ ہو گئی، جن میں کہا گیا کہ حکمرانوں کو نیک اور پرہیزگار ہونا چاہیے۔ رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے اصلاحات کرنی چاہیے تا کہ آخرت میں انہیں اس کا اجر ملے۔
ریناساں کے عہد میں تاریخ کے بارے میں مورخوں اور سیاست دانوں کا نقطہ نظر بدلا۔ مثلاً میکیاولی نے تاریخ کو اخلاقی قدروں سے آذاد کر دیا اور تاریخ میں ان افراد کو ہیرو بنا کر پیش کیا، جنھوں نے اپنی کامیابی کے لیے مذہبی اور اخلاقی قدروں کو پامال کیا۔ روشن خیالی کے دور میں دانشوروں نے چرچ کی طاقت اور تسلط کو توڑا اور تاریخ کو مذہب سے نکال کر سیکولر بنایا۔ جس کی وجہ سے تاریخ کا استعمال حکمراں طبقوں کے علاوہ عام لوگ بھی کرنے لگے۔ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا قوموں کو ماضی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ مورخوں کے ایک گروپ کا کہنا تھا کہ ماضی ختم ہو چکا ہے اب نہ اس میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی نئی فکر آ سکتی ہے۔ اس لیے قوموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کو بھول جائیں کیونکہ وہ بیکار ہو چکا ہے۔ اب انہیں اپنی توجہ موجودہ عہد اور مستقبل پر رکھنی چاہیے۔ اس نقطہء نظر کی مخالفت کرتے ہوئے دوسرے مورخوں کا کہنا تھا کہ ماضی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تاریخی عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری ھے۔ اس کے بغیر حال کو بھی نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس کی جڑیں بھی ماضی میں پیوست ہیں۔
موجودہ عہد میں جب نئے نظریات پیدا ہوئے تو تاریخ کو بھی ان میں ڈھالا جانے لگا۔ مثلاً یورپی کلونیل ازم نے ایشیا اور افریقہ کی تاریخ کو رد کرتے ہوئے ان کی تاریخ کو اپنے نقطۂ نظر سے لکھا۔ یہ ایک مسخ شدہ تاریخ تھی۔ جس میں یورپ کی برتری کو ثابت کیا گیا۔ ایشیا اور افریقہ کی تہذیب و تاریخ کو کم تر قرار دے کر ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ آذاد رہ کر کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یورپ کی تاریخ و تہذیب کا حصہ بنیں۔ وقت کے ساتھ اس نقطۂ نظر کے جواب میں ایشیا اور افریقہ کی قوموں میں قوم پرستی کے جذبات پیدا ہوئے اور انہوں نے نئے سرے سے اپنی تاریخ کی تشکیل کی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ کے فائدے اور نقصانات ہیں۔ مگر تاریخ قوموں میں شعور پیدا کر کے ان میں یہ جذبہ پیدا کرتی ہے کہ اپنے مسائل کا حل خود سے تلاش کریں۔ موجودہ دور میں تاریخ کا بیانیہ بدل گیا ھے اور اب عام لوگ نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ تاریخ بنانے والے بھی ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔