متحدہ عرب امارات یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی لا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یمنی تنازعے کے سیاسی حل کے لیے راہ ہم وار کرنا بھی ہے اور ایرانی امریکی کشیدگی بھی۔
اشتہار
سن 2015ء میں سعودی قیادت میں عرب عسکری اتحاد نے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ تاہم حوثی باغیوں کے خلاف ان عسکری کارروائیوں کا کہیں نکتہ انجام دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب یمن میں القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسند بھی بدستور موجود ہیں۔
متعدد میڈیا رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت اب سعودی قیادت میں عرب اتحاد میں اپنی شمولیت پر نظرثانی کر رہی ہے۔ رواں ہفتے متحدہ عرب امارات کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ابوظہبی حکومت یمن میں متعدد مقامات سے اپنے فوجی واپس بلا رہی ہے، جس میں حدیدہ کا بندرگاہی شہر بھی شامل ہے۔
واشنگٹن میں مشرقِ وسطیٰ پالیسی سے متعلق ایک تھنک ٹینک کے مطابق یمن میں اماراتی فورسز اپنے زیرقبضہ علاقوں کا کنٹرول خصوصی تربیت یافتہ فورسز کے سپرد کر رہی ہے اور اریٹریا میں اپنے فوجی اڈے سے اپنے دستے بھی واپس بلا رہی ہے۔ اسی فوجی اڈے سے یمن میں عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اماراتی حکومت یمن سے اس فوجی انخلا کا دفاع اس موقف کے ساتھ کر رہی ہے کہ جنوبی یمن میں اس کی عسکری مداخلت کے زیادہ تر اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں۔ ابوظہبی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ چوں کہ اقوام متحدہ اب اس تنازعے کے حل کے لیے سرگرم ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ عسکری کارروائیوں کو محدود کیا جائے۔
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Aden city/Roaida Ba Hameel
8 تصاویر1 | 8
تاہم دوسری جانب ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر اس فوجی انخلا کی وجہ بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی کرائسس گروپ کے خلیجی خطے سے متعلق امور سے وابستہ سینیئر ماہرایلیزبتھ ڈیکنسن کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمنی تنازعے میں اپنی عسکری مداخلت کے لیے دو اہداف رکھے تھے، جن میں سے ایک حوثی باغیوں سے لڑائی تھی اور دوسرا شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی، جب کہ ان شدت پسند گروہوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں سے لے کر اخوان المسلمون سے وابستہ افراد بھی تھے، تاہم اب ابوظہبی حکومت یہ جان چکی ہے کہ یہ اہداف بے حد وسیع ہیں۔ ڈیکنسن کے مطابق متحدہ عرب امارات میں یہ سوچ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ امارات فقط سعودی عرب کی وجہ سے اس تنازعے کا بلاوجہ حصہ بن گیا۔
دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں بھی متحدہ عرب امارات کی حکومت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی فوج کو یمن سے نکالنا چاہتی ہے۔