اگر مصنوعی ذہانت والی، جدید ترین خود کار مشینیں کوئی بہت بڑی غلطی کر بیٹھیں، تو کیا ہو گا؟ کیا ایسی کسی غلطی پر مستقبل میں مشینوں کو بھی جیل جانا پڑے گا؟ قانونی ماہرین کے پاس ابھی تک اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
اشتہار
آج کل کی جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیا میں یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت یعنی artificial intelligence یا AI کا استعمال ایسے ہی ہو گا، جیسے عام گھروں میں بجلی یا ٹیلی فون استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ مصنوعی ذہانت خود بخود چلنے والی یا سیلف ڈرائیونگ کاروں کی صورت میں بھی ہو گی، پیچیدہ طبی آپریشن کرنے والے روبوٹس کی شکل میں بھی اور ایسے صنعتی مشینوں کی صورت میں بھی جو اپنے طور پر سوچنے کی اہل بھی ہوں گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایسی خود کار مشینیں کوئی بہت بڑی مہلک غلطی کریں گی، تو ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ کیا مستقبل میں ایسی AI مشینوں کو سزا کے طور پر جیلوں میں بھی بھیجا جا سکے گا؟
اب تک دنیا کے سبھی انسانی معاشروں میں فوجداری قانون یہی ہے کہ جو کوئی بھی کسی انسان کو زخمی کر دینے یا اس کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، اسے اپنے کیے کی تلافی کرنا اور سزا بھی کاٹنا پڑتی ہے۔ تمام انسانی معاشروں میں قانون سازی کا بنیادی اصول یہی ہے۔ لیکن جس طرح عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کا شعبہ ترقی کر رہا ہے، اس نے مختلف ممالک کے فوجداری قوانین کے ماہرین کے لیے ایک نیا سوال بھی کھڑا کر دیا ہے۔
یہ سوال سائنس فکشن کا حصہ نہیں
قصور وار اگر انسان ہو، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔ آئندہ اگر خود کار مشینیں بڑے بڑے حادثات یا انسانوں کی ہلاکت کی وجہ بنیں، تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ ہو سکتا ہے کہ سننے والوں کو یہ بھی کسی سائنس فکشن کا حصہ ہی لگے، لیکن کئی معاشروں میں صنعتی شعبے، انشورنس کمپنیاں، قانون سازی پر تحقیق کرنے والے ماہرین اور سیاستدان ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں کتنی ذہین ہیں؟
مصنوعی ذہانت کے خطرات سے متعلق بحث میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ’ذہین‘ مشینوں کی تیاری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تو کیا اس موضوع پر اس قدر ہنگامہ بلا جواز ہے؟
تصویر: "Cheetah Robot image courtesy of Boston Dynamics
ایٹم بم سے بھی بڑا خطرہ؟
سِلیکون وَیلی کے سٹار ایلون مَسک نے، جواسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی ہیں، گزشتہ سال موسمِ گرما میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کی صورت میں انسان نے اپنی بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کو جنم دیا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ ممکنہ طور پر وہ سب سے بڑی غلطی ہے، جو انسان سے سرزد ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/L. Nicholson
سب کچھ محض مبالغہ آمیز ہِسٹیریا؟
لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ مستقبل میں انسان کو مدد اور تعاون فراہم کریں گے، جیسا کہ ہالی وُڈ کی تازہ سائنس فکشن فلم ’چَیپی‘ میں دکھایا گیا ہے؟ اس فلم کے مطابق اس روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کیا جاتا ہے کہ وہ سوچ بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ یہ روبوٹ پولیس کے ایک جارح روبوٹ یونٹ پر قابو پانے میں انسانوں کی مدد کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Blomkamp
انتہائی تیز رفتار ڈرون سمندر میں غرق ہو گیا
حالیہ کچھ عرصے پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ’مصنوعی ذہانت‘ کے معاملے میں بہت کچھ گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے مثلاً 2011ء کے موسمِ گرما میں امریکی فوج کے فالکن ایچ ٹی وی ٹو نامی ڈرون کی آزمائشی پرواز کوئی مثالی منصوبہ ثابت نہ ہوا۔ بغیر پائلٹ کے چلنے والا اور آواز سے زیادہ رفتار کا حامل یہ ہوائی جہاز اپنی پرواز شروع کرنے کے صرف نو منٹ بعد ہی سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DARPA
دیکھا جائے تو کچھ نیا نہیں ہے
اس موضوع پر تمام تر تازہ بحث مباحثے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ فوجی نظاموں میں ’مصنوعی ذہانت‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ تقریباً بیس برسوں سے ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل اجزاء ہی کی بدولت بہت سے فوجی نظام بہتر طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یورو فائٹر ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Pond
سائنس فکشن اور حقیقت کا ملاپ
وقت کے ساتھ ساتھ ’ذہین‘ مشینیں زیادہ سے زیادہ غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں گو روزمرہ زندگی سے ابھی وہ اتنی مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ چار ٹانگوں والا روبوٹ ’بِگ ڈاگ‘ اپنے ساتھ وزن لے کر ناہموار زمین پر چڑھ اتر سکتا ہے اور برف پر چل سکتا ہے۔ دریں اثناء گوگل نے یہ روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی بوسٹن ڈائنیمِکس خرید لی ہے۔
یقینی بات یہ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل نظاموں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے سبب اس بحث کی ضرورت بہرحال موجود ہے۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے پیشگی کوششوں کی ضرورت ہے اور ’مصنوعی ذہانت‘ کو ذمے داری کے ساتھ پروگرام کرنے کے سلسلے میں کبھی نہ کبھی تو بنیادی اخلاقی اصول، سیاسی ضابطے اور معیارات طے کرنا ہی ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DARPA
6 تصاویر1 | 6
جرمنی کی عالمی سطح پر فعال بہت بڑی انشورنس کمپنی آلیانس کے املاک کی انشورنس کے شعبے کے سربراہ یوآخم میولر کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں صنعتی روبوٹس اور سیلف ڈرائیونگ کاروں سمیت مصنوعی ذہانت اتنی ترقی کر جائے گی کہ اسے معاشرتی سطح پر ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کر لیا جائے گا۔
یوآخم میولر کے مطابق، ’’سوچنے والی مشینیں، خود کار روبوٹ یا اور جو کچھ بھی آئندہ برسوں میں دیکھنے اور استعمال میں آئے گا، ان سب کے پیچھے ایک بات کی وضاحت ہمیشہ ممکن رہے گی کہ حتمی ذمے داری کس کی ہے۔‘‘
مشینوں کا تو نہ شعور نہ ضمیر
جرائم کی سزا دینے سے متعلق قانون کسی بھی ملک کا ہو، اس کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ جرم کے مرتکب فرد کی بنیادی سوچ کیا تھی؟
لیکن خود کار مشینیں چاہے کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہوں، ان کا اپنا نہ تو کوئی شعور ہوتا ہے اور نہ ہی ضمیر۔ اس لیے جس فوجداری قانون کا اطلاق کسی انسان پر ہو سکتا ہے، اس کا اطلاق کسی مشین پر ہو ہی نہیں سکتا۔
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی کی پینل کوڈ چیئر پر فائز ماہر قانون سوزانے بَیک کہتی ہیں، ’’دیوانی قانون کے اب تک کے معمول کے مطابق کسی غلطی یا جرم کے ارتکاب کی صورت میں ذمے دار وہ انسان ہوتا ہے، جو کسی مشین کو چلاتا ہے۔‘‘
انسان نما روبوٹ روزمرہ زندگی میں
روبوٹ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم انسانوں جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کارکردگی بھی درحقیقت اچھی ہوتی ہے۔ آئیے چند ایک زبردست میکانی معاونین سے ملتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روبوائے، آپ سے مل کر خوشی ہوئی!
آج کل کے انسان نما روبوٹس میں شاید یہ سب سے زیادہ لاجواب ہے، روبوائے۔ اس کی جِلد ہموار ہے اور پٹھے اور نسیں بھی ہیں، جنہیں دیکھ کر یہ بالکل کسی انسان کی طرح لگتا ہے۔ روبوائے مصافحہ کر سکتا ہے، بول بھی سکتا ہے اور کبھی کبھی اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار بھی کر جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/John MacDougall
ایک حساس روبوٹ
انسان نما روبوٹس کی ایک اور اچھی مثال ہے، جسٹن، جسے جرمن انسٹیٹیوٹ فار ایرو اسپیس (DLR) نے تخلیق کیا ہے۔ یہ ننھا روبوٹ بنیادی طور پر اُس روبوٹ بازو کا ایک حصہ ہے، جس نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن آئی ایس ایس پر پانچ سال گزارے۔ اسے خلاء کے لیے وضع کیا گیا تھا لیکن اب یہ کھڑکیاں صاف کرنے جیسے عام روزمرہ کام بھی انجام دے سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Schmidt
یہ روبوٹ لکھ سکتا ہے
توریت کی پوری عبارت کو تحریر کرنے کے لیے ایک ماہر کاتب کو ایک سال درکار ہوتا ہے۔ ’بائیوس‘ نامی اس روبوٹ نے یہ سارا متن دَس ہفتوں میں لکھ ڈالا۔ ایک قلم اور روشنائی سے مسلح اس روبوٹ نے کاغذ کے ایک اَسّی میٹر بڑے رول پر مجموعی طور پر تین لاکھ چار ہزار آٹھ سو پانچ الفاظ لکھے۔
تصویر: robotlab
روبوٹ بیرا
میکانی آلات بنانے میں چین بھی بہت آگے ہے۔ بہت سے چینی ریستورانوں میں آپ کو اس طرح کے روبوٹس نظر آئیں گے، جو گاہک کی میز پر جا کر آرڈر لینے کی ذمے داری سرانجام دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/P. Hilton
کھانا تیار ہے!
اور ہاں، یہ چھوٹے چھوٹے انسان نما روبوٹس کھانا پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ روبوٹس نہ تھکتے ہیں اور نہ ہی شکایت کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ChinaFotoPress/MAXPPP
روبوٹ باورچی
روبوٹس باورچی خانے میں بھی خدمات انجام دینے کے قابل ہو چکے ہیں، یہ اور بات ہے کہ وہاں ان کا کردار کافی محدود ہوتا ہے مثلاً پہلے سے تیار شُدہ کھانوں کو گرم کرنا۔ اصل کھانا اُن کے انسانی ساتھی ہی پکاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ChinaFotoPress/MAXPPP
روبوٹ سے زیادہ ایک مشین
اس گیلری میں دکھائے گئے زیادہ تر روبوٹس کے برعکس ایسے روبوٹس بھی ہوتے ہیں، جو انسان نما نہیں ہوتے بلکہ ایک مشین ہی کی طرح نظر آتے ہیں۔ مثلاً اس تصویر میں نظر آنے والے روبوٹ کا نہ کوئی سر ہے، نہ بازو اور نہ ہی ٹانگیں لیکن چونکہ یہ گاہکوں کے سامنے کام نہیں کر رہا، اس لیے اِس کی شکل و صورت کا معاملہ ثانوی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کچھ روبوٹ محض تفریح کے لیے
یہ تصویر چینی شہر شنگھائی کے قریب ایک روبوٹ ریستوراں کی ہے۔ یہاں روبوٹ محض تفریح کے مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے والے پیغامات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تفریح لوگوں کو پسند آتی ہے۔ ایک پیغام میں لکھا تھا:’’تجربہ شاندار رہا، خوراک خوف ناک تھی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Robichon
8 تصاویر1 | 8
پروفیسر سوزانے بَیک ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اگر میں نے انٹرنیٹ پر گوگل سے کچھ تلاش کیا اور پھر اپنے فیصلے کی بنیاد انہی معلومات کو بنایا، تو یوں جو کچھ بھی میں کروں گی، اس کی ذمے داری بھی مجھ پر ہی عائد ہو گی۔‘‘
دیوانی اور فوجداری قوانین میں امتیاز
دوسری طرف جرمنی کی وُرسبُرگ یونیورسٹی کے روبوٹس سے متعلق قوانین پر تحقیق کرنے والے شعبے کے ماہر نکولاس وولٹ مان کہتے ہیں، ’’دیوانی قانون میں تو مشینوں کی غلطی کی ذمے داری ایک عرصے سے واضح طور پر ان کے مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ مثلاﹰ آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور اگر آپ کی گاڑی کسی حادثے کی وجہ بنتی ہے، تو ذمے دار آپ ہیں۔‘‘
لیکن نکولاس وولٹ مان کہتے ہیں، ’’فوجداری قانون کی بات الگ ہے۔ فوجداری جرائم کا ارتکاب صرف انسان کر سکتے ہیں، مشینیں نہیں۔ اور جب مشینیں ایسے جرائم کا خود ارتکاب کر ہی نہیں سکتیں، تو انہیں سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘
اس بارے میں سماجیات، قانون اور اخلاقیات کے ماہرین اب تک جس ایک بات پر متفق ہو سکے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ بحث ایک بالکل نئے اخلاقی اور قانونی منظر نامے سے متعلق ہے، جہاں تاحال بہت کچھ غیر واضح ہے لیکن آئندہ برسوں میں اس سلسلے میں ٹھوس بنیادوں پر قانونی وضاحت اتنی ہی ناگزیر ہو گی جتنا روزمرہ زندگی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق ان حالات میں المیہ یہ ہو گا کہ کوئی صنعتی روبوٹ یا خود کار مشین کسی انسانی جان کے ضیاع کا سبب بنے اور قانونی طور پر یہ طے ہی نہ کیا جا سکے کہ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
خود فیصلہ کرنے والی کاریں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں تیار تو ہو چکی ہیں تاہم بغیر ڈرائیور کے کار کا سفر آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اور کیا لوگ اس کے لیے تیار ہیں کہ کاریں ان کے لیے خود فیصلہ کریں؟
تصویر: media.daimler.com
انتہائی آرام دہ
مرسیڈیز بینز کا یہ پروٹوٹائپ، F015 دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک خودکار گاڑی دیکھنے میں کس طرح کی ہو گی۔ اس میں ڈرائیور کی کوئی سیٹ ہو گی ہی نہیں اور مسافروں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب ہے۔ یہ پروٹوٹائپ بھی سیلیکان ویلی میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ یہ کار زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے۔
تصویر: media.daimler.com
سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر
اس آؤڈی سیون میں بے شمار سینسرز لگے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اس کار نے سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر کیا جہاں یہ CES ٹریڈ فیئر میں شریک ہوئی۔ 600 میل کے اس سفر میں ایک ڈرائیور تمام وقت اسٹیئرنگ کے پیچھے موجود رہا تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ تاہم اس سفر میں یہ سب کچھ درست رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Fets/Audi AG
کیا اصل ٹریفک میں سفر ممکن؟
گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔ تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں۔ اگر سڑک پر صورتحال درست نہیں ہے تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے سے آگے والی کار سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھتی ہے اور سامنے والی کار کے ساتھ بالکل جُڑ کر نہیں چلتی۔
تصویر: imago/Jochen Tack
ایک کار دوسری کی پیروی میں
یہ دو خودکار گاڑیاں جرمن شہر میونخ میں واقع ’یونیورسٹی آف بنڈس ویئر‘ کی طرف سے تیار کی گئی ہیں اور یہ ’میولے سنیریو‘ میں سفر کر رہی ہیں جس میں پیچھے والی کار ہمیشہ اپنے سے آگے والی کار کی پیروی کرتی ہے۔ یہ کاریں دراصل ملٹری روبوٹک مقابلے میں شریک ہیں جس میں انہوں نے ناہموار راستوں پر سفر کرنا تھا، جس میں یہ کامیاب رہیں۔
تصویر: DW
حادثے سے بچاؤ
زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورتحال وغیرہ۔ ایسے میں تیز رفتاری سے سفر کرنے والے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کے لیے سینسرز
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی یہ گاڑیاں اپنے ارد گِرد کی دنیا کو مختلف آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ گوگل کار ایک لیزر سینسر استعمال کرتی ہے جو اپنے ارد گرد ماحول کا سہہ جہتی یا تھری ڈی اسکین کرتا ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
ایک لیزر اسکینر کی آنکھ سے دنیا کی تصویر
بنڈس ویئر یونیورسٹی کی کار غیر ہموار راستے پر سفر کر رہی ہے۔ لیزر ارد گرد کی چیزوں کو اسکین کرتی ہیں اور کمپیوٹر اس اسکین کی مدد سے ایک تھری ڈی نقشہ تیار کرتا ہے۔
تصویر: Universität der Bundeswehr/TAS
سیٹلائٹ، راڈار اور آپٹیکل آئی کی مدد سے سفر
یہ روبوٹک گاڑیاں دیگر سینسرز کی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن FKIE کی تیار کردہ یہ گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ استعمال کرتی ہے جو اس کے لیے نظر کا کام کرتا ہے۔ ایک چھوٹا راڈار اور GPS سینسرز کے ذریعے یہ نقشے پر اپنی بالکل پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔
تصویر: DW/Fabian Schmidt
میڈ ان جرمنی
جرمن کمپنی ڈائملر میں بھی ریسرچرز خودکار کاروں کے لیے آپٹیکل کیمرے کا استعمال کر رہے ہیں۔ وِنڈ اسکرین کے پیچھے لگے کیمرے دیکھتے ہیں کہ سڑک پر کیا ہو رہا ہے اور پھر اس کے مطابق کار کا کمپیوٹر فیصلہ کرتا ہے۔ ڈائملر کا تیار کردہ یہ حفاظتی نظام 2011ء میں جرمنی کے انوویشن ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
حرکت کا ادراک پکسلز کی مدد سے
کار میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
بریک لگائی جائے یا پھر بچ کر گزرا جائے
روبوٹک کار کا کمپیوٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سامنے آنے والا کوئی فرد یا چیز کس طرح حرکت کرے گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس تصویر میں سڑک پر آنے والے شخص کو نارنجی رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے جو خطرے کی علامت ہے جبکہ بائیں جانب ٹریفک سبز ہے مطلب اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔