پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما مشاہد حسین سید نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اگر ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو فوج کے ساتھ کام کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس بیان کو مختلف حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
پاکستان مسلم لیگ نون کے میڈیا سیل کے چئیرمین اور جماعت کے رہنما مشاہد حسین سید نے ایک مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ان کی جماعت اقتدار میں آئی، تو ان کی سیاسی جماعت کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون میں ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے کے حامی موجود ہیں اور وہ مفاہمت بھی چاہتے ہیں۔
مشاہد حسین کے اس حالیہ بیان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت یہ نہیں کہتی کہ وہ فوج کے خلاف یا اس کی مرضی کے خلاف کام کرے گی، ’’جب ریاست کا کاروبار چلانا ہوتا ہے تو فوج اور حکومت کے درمیان جو بھی مسائل ہوں، ان سے قطع نظر سمجھوتا تو کرنا پڑتا ہے تو یہ ان کی جانب سے ایک طرح سے حقیقت کا اظہار ہے۔ پھر یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ اگر ان کی حکومت بنے گی تو حکومت سازی اور حکومتی پالیسی میں فیصلہ کن کردار مسلم لیگ نون کے موجودہ صدر شہباز شریف کا ہو گا اور وہ ابتدا سے ہی کبھی دبے اور کبھی کھلے لفظوں میں کہتے رہے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے درمیان کشمکش کے خلاف ہیں اور باہمی مفاہمت کے ذریعے ہی ریاست کا کاروبار چلانا چاہتے ہیں۔‘‘
نصرت جاوید نے نواز شریف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں وقت کے ساتھ جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے مطابق نواز شریف کا روزمرہ کی پالیسی میں کردار کم ہوگا اور اگر ان کے نام کے ساتھ منسوب جماعت اقتدار میں آئے گی تو وہ وقت دینا چاہیں گے اس حکومت کو کہ وہ اپنے معاملات دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ بہتر کریں۔‘‘
صحافی آغا مسعود حسین کے مطابق،’’مشاہد حسین ایک اعتدال پسند آدمی ہیں اور بنیادی طور پر ان کو سول اور عسکری اسٹیبلیشمنٹ پسند کرتی ہے۔ یہی بات کی جاتی ہے کہ نواز شریف کو بنانے اور سیاسی حثیت دلوانے میں خود فوج کا ہاتھ رہا ہے تو اگر یہ بیانیہ آیا ہے تو میرے خیال سے یہ بلکل ٹھیک ہے۔‘‘
آغا مسعود کے مطابق اگر واقعی مسلم لیگ نون اس بیانیے پر قائم رہتی ہے تو شاید پاکستان میں بہت تبدیلی آسکتی ہے، ’’جہاں تک اقتدار میں آنے کا تعلق ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اتنی آسانی سے یہ بات ممکن ہو سکے گی کیونکہ پاکستان کے عوام مجموعی طور پر اب یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے جو اسٹینڈ لیا ہے اور بات کر رہے ہیں اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف وہ انکا اپنا نہیں بلکہ پڑوسی ملک کا بیانیہ ہے۔ لیکن اب مشاہد حسین کے بیان سے لگتا ہے کہ حالات اب اعتدال کی طرف جائیں گے۔ وہ (مسلم لیگ نون) اقتدار میں آئے یا نہ آئے، لیکن یہ بیانیہ عملی طور پر درست ہے۔‘‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ اب سے چند ماہ قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات نے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں میں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ’سودے بازی‘ کی خبروں کو گرما دیا تھا تاہم ن لیگ کی جانب سے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔