1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مشرف واقعی عدالت میں پش ہونے کے قابل نہیں ؟ میڈیکل بورڈ تشکیل

شکور رحیم 16 جنوری 2014

پاکستان کے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی صحت کے متعلق جاننے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا حکم دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

عد الت نے اپنے حکم میں مسلح افواج کے ادارہ برائے امراض قلب(اے ایف آئی سی) کے سینئیر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ کو 24 جنوری کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں میڈیکل بورڈ کو تین سوالات کے جوابات دینے کا کہا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا پرویز مشرف کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے؟ ملزم کا ابھی تک کیا علاج معالجہ کیا گیا ہے، کوئی سرجری ہوچکی ہے یا ہونی ہے؟ اور یہ کہ ملزم کو کب تک ہسپتال میں زیر علاج رکھا جائے گا؟۔

جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے جمعرات کو پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کی۔ استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’’خصوصی عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ مقدمے میں رکاوٹ بننے اور حکم عدولی کرنے والے کو سزا دے سکتی ہے، عدالت میں پیش نہ ہونے والے شخص کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پرنہیں سنا جانا چاہے‘‘۔

پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری، خالد رانجھا اور محمد علی سیفتصویر: Shakoor Raheem

مشرف کے وکیل انور منصور نے دلائل میں کہا کہ استغاثہ کو انتقامی رویہ نہیں اپنانا چاہیے، مشرف خرابی صحت کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہوسکتے۔ ان کے ذاتی معالج نے امریکا میں علاج کرانے کی تجویز دی ہے۔

پرویز مشرف کی بیرون ملک علاج سے متعلق تجویز پر مبنی خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ خط پیرس میڈیکل سینٹر ٹیکساس کے ڈاکٹر ارجمند ہاشمی کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف دوہزار چھ سے ان کے زیر علاج ہیں اور مشرف کی جو حالیہ میڈیکل رپورٹ انہیں ارسال کی گئی ہے، وہ تشویشناک ہے۔ اس لیے مشرف کو جلد سے جلد علاج کے لیے امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع پیرس اسپتال منتقل کیا جائے۔

عالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ اس کے پاس دو راستے ہیں ایک کہ وہ ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے اور دوسرا یہ کہ وہ ان کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ دوسرا راستہ اختیار کر ہی ہے۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے وکیل اور فوجداری قانون کے ماہر ذولفقار بھٹہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ’’ اگر عام مقدمے کے حساب سے دیکھیں تو بے شک وہ ہسپتال میں داخل ہوں لیکن اگر ان کے وکیل میڈیکل ثبوت پیش نہیں کر سکتے تھے تو یقیناً ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے تھے۔ تو زیادہ سے زیادہ یہ رعایت ہو تی ہے کہ میڈیکل بورڈ بنا دیا جائے۔ دوسری صورت میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص پیش نہیں ہوتا تو فوری طور پر اس کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جاتے ہیں اور اس کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور باقی ساری کارروائیاں ملزم خود کرتا ہے وہ پھر درخواستیں دیتا ہے کہ میرا میڈیکل کرایا جائے‘‘۔

اسی دوران بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے وکلاء کو فوجی ہسپتال سے اپنی مرضی کی رپورٹ نہیں مل سکی اسی لیے انہوں نے ایک پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سے خط منگوایا تاکہ ملزم کی بیرون ملک روانگی ممکن ہو سکے۔ تاہم پرویز مشرف کے ایک وکیل بیڑسٹر علی سیف نے اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہاکہ ’’ امریکی ڈاکٹر کی رپورٹ کا اے ایف آئی سی کی رپورٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ 2006 ء سے پرویز مشرف کا علاج کر رہے ہیں اور ان کی پرویز مشرف کی صحت کے بارے میں ایک رائے ہے ۔انہوں نے وہ رائے دی ہے۔ وہ ایک اضافی چیز ہے جو ہم نے عدالت میں جمع کرائی ہے۔

جمعرات کے روز ہی پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا گیا۔

جبکہ پرویز مشرف کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی بھی سماعت ہوئی۔ پرویز مشرف کے وکلاء نے بینچ میں شامل جسٹس شوکت صدیقی پر عدم اعتمادکا اظہار کر دیا۔ اس پر جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو بینچ سے الگ کرتے ہوئے مقدمے کی فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوا دی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں