حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی نگرانی میں مصالحت نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کیا مشرقِ وسطیٰ میں امریکی کردار کم ہو رہا ہے؟
اشتہار
چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں حیران کن کردار ادا کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیش رفت نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے دیرینہ اثرورسوخ پر کئی طرح کے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ایک ایسے موقع پر کہ جب اسرائیل میں بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام اور فلسطینیوں کی جانب سے شدید برہمی پر امریکہ بے بس دکھائی دے رہا ہے، ایسے میں چین کا ایران اور سعودی عرب جیسے روایتی حریفوں کو کامیاب انداز سے ملانا اور سفارتی روابط بحال کرنے پر راغب کر لینا، مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال حال کا عکاس ہے۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''ہر وہ پیش رفت جو خطے میں کشیدگی میں کمی اور ایران کے خطرناک اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے کسی اقدام کو روکنے یا تنازعے سے بچنے کا راستہ مہیا کرے، ایک اچھی پیش رفت ہو گی۔‘‘
امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں چینی اثرورسوخ محدود کرنے کی کوششوں میں ہے، تاہم ایک ایسے وقت میں کہ جب امریکہ اور مغربی دنیا یوکرینی جنگ میں الجھی ہوئی ہے، یہ چینی پیش رفت انڈو پیسیفک خطے میں چین کے سفارتی اور عسکری اثرورسوخ میں اضافے کی طرح غیرمعمولی ہے۔
امریکہ کے غیر ملکی پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مشرقِ وسطیٰ شعبے کے ڈائریکٹر جیمز رائن کے مطابق مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے امریکہ ہر طرح کی کوششوں پر خوش ہے، حتیٰ کہ یہ کوششیں اس کے روایتی حریف چین ہی کی جانب سے کیوں نہ ہوں۔ ''بائیڈن انتظامیہ یہ بات واضح انداز سے باور کرا چکی ہے کہ جب بات مشرق وسطیٰ کی ہو گی، تو امریکہ کے لیے سب سے اہم شے سیکورٹی اور استحکام ہو گی۔ خطے میں امریکی موجودگی ماضی کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے اور سعودی عرب اس پیغام کو واضح انداز سے سمجھ چکا ہے۔‘‘
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
11 تصاویر1 | 11
چین اس معاملے میں ایک ایسے وقت میں اترا ہے کہ جب ایک طرف امریکہ ایران کو خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنا دباؤ بڑا رہا ہے، جب کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کی اسرائیلی فلسطینی معاملے میں مداخلت بھی بہت حد تک غیر اہم ہوتی جا رہی ہے۔
گو کہ رواں ہفتے سعودی عرب کے لیے سینتیس ارب ڈالر کے بوئینگ طیارے فروخت کرنے کی ایک ڈیل عمل میں آئی ہے، صدر بائیڈن کی جانب سے گزشتہ برس اکتوبر میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نظرثانی کے احکامات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔