1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف ہے؟

2 جنوری 2023

کئی دفاعی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو غلط فہمی پر مبنی قرار دیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ میں اب تک جنرل قمر جاوید باجوہ کا ’سیٹ اپ‘ ان کے خلاف سرگرم ہے۔

صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جنرل قمر باجوہ نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جنرل قمر باجوہ نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہجنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھیوں کا مقصد انہیں اقتدار میں واپس آنے سے روکنا ہے۔ اتوار کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جنرل قمر باجوہ نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف احتساب میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور یہ کہ ان کا رویہ ملازمت میں توسیع لینے کے بعد تبدیل ہو گیا تھا۔ عمران خان نے یہ بھی الزام لگایا کہ سابق آرمی چیف نے امریکہ میں لابنگ کے لیے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی خدمات حاصل کیں، جس نے ان کے (عمران) خلاف مہم چلائی اور جنرل باجوہ کی تشہیر کی۔

کیا فوج عمران خان کے خلاف ہے؟

تاہم کئی سیاسی مبصرین عمران خان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب  اکرم کا کہنا ہے کہ آرمی کی یہ روایت رہی ہے کہ جب نیا آرمی چیف آجاتا ہے تو ریٹائرڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرا نہیں خیال کہ باجوہ صاحب کا کوئی سیٹ اپ ہے اور یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگ اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہوں، جو تحریک انصاف کے حوالے سے باجوہ صاحب کی رائے سے متفق ہوں لیکن اتفاق کرنے والے اسی طرح پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔‘‘

پاکستان کے غیر سیاسی بانکے سجیلے

حبیب اکرم کے مطابق یہ ممکن ہے کہ آرمی باجوہ صاحب کی سکیورٹی میں بالکل اسی طرح دلچسپی لے، جیسے کہ اس نے مشرف کی سکیورٹی میں دلچسپی لی تھی، '' تحریک انصاف کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ میں پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور تحریک انصاف کے حوالے سے پالیسی ممکنہ طور پر بدل سکتی ہے۔ جہاں تک سیاسی طور پر غیر جانبدار رہنے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں غیر جانب داری کا یہ سلسلہ چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا گیا تھا اب وہ امتیازی سلوک بھی نہیں برتا جائے گا۔‘‘

توجہ 'غیر سیاسی معاملات‘ پر ہے

 لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ ابھی تک کے، جو اشارے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہے کہ نئے آرمی چیف کی توجہ خالصتاﹰ پروفیشنل معاملات پر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نئے آرمی چیف نے آتے ساتھ ہی سرحدی علاقوں کا دورہ کیا ہے اور جوانوں سے ملاقات کی ہے، جس سے یہ بات بڑی واضح ہے کہ فوج کی توجہ سکیورٹی اور پروفیشنل امور پر ہے۔ تین روزہ کورکمانڈر کانفرنس جو ہوئی، اس میں بھی سکیورٹی اور معیشت کے حوالے سے بات ہوئی جبکہ دو روزہ نیشنل سکیورٹی اجلاس میں بھی اسی حوالے سے بات ہوئی۔‘‘

پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت، شوشہ کس نے اور کیوں چھوڑا؟

جنرل غلام مصطفی کا کہنا تھا کسی نے ممکنہ طور پر عمران خان کو غلط بتایا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے خلاف ہے، ''فوج کی روایت رہی ہے کہ جو ریٹائرڈ ہو گیا، تو بس وہ ریٹائرڈ ہوگیا۔ آرمی میں چین آف کمانڈ ہوتی ہے اور تمام سپاہی اور افسران کمانڈ کے پابند ہوتے ہیں۔ آرمی میں کسی کا کوئی سیٹ اپ نہیں ہوتا بلکہ جو بھی سیٹ اپ ہوتا ہے، وہ آرمی کا اپنا ہوتا ہے۔‘‘

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خیال نہیں کہ سابق آرمی چیف کوئی معنی خیز انداز میں ادارے کی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘‘

جمہوریت پر رپورٹ

دریں اثناء پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی نے پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال پر ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دو ہزار بائیس جمہوریت کے لیے مایوس کن رہا، ''گزشتہ ستر سال میں اقتدار کے لالچی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جمہوریت کے ساتھ کھیلی جانے والی بہت سی چالیں سال بھر میں ایک ایک کر کے بے نقاب ہوئیں اور نومبر دو ہزار بائیس میں سبکدوش ہونے والے کمانڈر کے اعتراف پر اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئیں۔ دوہزار بائیس میں جمہوری نظام کھل کر بے نقاب ہوا۔‘‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان ملکی سیاست میں خرابی کو روکنا چاہتا ہے تو غیر آئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا پڑیں گے، ''کمانڈ کی تبدیلی کے بعد سے اب تک سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ سیاست میں عدم مداخلت کی اس پالیسی کے تمام فوائد شاید فوری طور پر حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہے، تو جمہوریت کی صورت حال میں طویل مدتی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں