1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مودی بھارت اور پاکستان کے مابین دوری ختم کر دیں گے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
12 جون 2024

نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے تہنیتی پیغام اور وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے مبارک باد کے بعد دونوں حریف ہمسایہ ملکوں کے قریب آنے کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔

بھارت اور پاکستان
نریندر مودی کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت اور پاکستان میں تلخیاں کم ہونے کی امید کی جا رہی ہےتصویر: Aman Sharma/AP Photo/picture alliance

 

نریندر مودی کے تیسری مرتبہ بھارت میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے انہیں اپنے تہنیتی پیغام میں نفرت کو امید میں بدلنے اور جنوبی ایشیا کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مودی کو مبارک باد دی، جس کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم نے ان دونوں رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا۔

نواز شریف کا بھارتی وزیر اعظم مودی کے نام پیغام

بھارتی وزیراعظم مودی کو عالمی رہنماؤں کی مبارک باد

بھارتی صحافی اور سیاسی تجزیہ کار اسمتا شرما کا کہنا ہے کہ ماضی میں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان گرم جوشی رہی ہے اور باہمی تفہیم بھی نسبتاً زیادہ نظر آتی رہی ہے، حالانکہ اس دور کے بعد کے حالات اور واقعات کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایک عرصے سے پوری طرح سرد پڑے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو درپیش بڑے چیلنجز

مودی کی فتح پر مظفر آباد میں کشمیریوں کا احتجاج

اسمتا شرما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سابق اور موجودہ وزرائے اعظم کے پیغامات اور وزیر اعظم مودی کی طرف سے ان کے جوابات میں ''بہت کچھ تلاش کرنا فی الحال درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ رسمی چیزیں ہے۔ لیکن اگر دونوں ملک چاہیں تو چھوٹی سی کھڑکی ضرور کھل سکتی ہے۔‘‘

اسمتا شرما کا کہنا تھا، ''پاکستان میں بھی بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے عوام اور بالخصوص تاجر برادری کی طرف سے اکثر آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ سکھ زائرین کو پاکستان کی طرف سے ویزے بھی جاری کیے جا رہے ہیں، لیکن ابھی بہت زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں۔‘‘ ان کے مطابق، ''گیند اس وقت پاکستان کے کورٹ میں ہے۔‘‘

نریندر مودی نے سال 2015 میں پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

’مودی پاکستان کو پیغام بھیج سکتے ہیں‘

ایک اور نامور بھارتی صحافی اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے سیکرٹری سنجے کپور کا خیال ہے کہ مودی چونکہ اس مرتبہ مخلوط حکومت چلا رہے ہیں، اس لیے وہ حلیف جماعتوں کی حمایت اور ان ووٹروں کو بھی، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیے، خوش کرنے کے لے  بعض ''غیر معمولی‘‘ اقدام کر سکتے ہیں اور اس ضمن میں ''پاکستان سے بات کرنے کا پیغام بھیج سکتے ہیں۔‘‘

سنجے کپور کا خیال ہے کہ مودی پاکستان سے بات چیت اس لیے شروع کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں ''اس بات کا احساس ہے کہ مخلوط حکومت کی سیاست کے سبب ملک میں وسط مدتی انتخابات بھی ممکن ہیں اور الیکشن جیتنے کے لیے انہیں مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنا ہوگا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''پاکستان سے بات چیت اس سمت میں پہلا قدم ہو سکتی ہے۔‘‘

خیال رہے کہ 11 جون کو وزارت خارجہ کا دوبارہ چارج سنبھالنے کے بعد وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، ''پاکستان کے ساتھ ہم دہشت گردی کے برسوں پرانے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیں گے۔‘‘

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے برسوں پرانے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہے گاتصویر: Johannes Simon/Getty Images

دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ

بھارت اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے دہشت گردی کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نئی دہلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بات چیت کے لیے ماحول بنانے کی ذمہ داری اسلام آباد کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ نواز شریف ہمیشہ ہی بھارت کے ساتھ امن کے حامی رہے ہیں اور سن 2013 سے 2017 کے اپنے آخری دور میں ملک کی طاقت ور فوج کے ساتھ اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

نواز شریف نے رواں برس 28 مئی کو اپنی پارٹی پی ایم ایل (این) کی جنرل کونسل کی میٹنگ میں، جس میں انہیں دوبارہ پارٹی صدر منتخب کیا گیا، کہا تھا کہ پاکستان نے 1999ء کے بھارت کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔

نواز شریف نے کہا تھا، ''28 مئی 1998 کو پاکستان نے پانچ جوہری تجربات کیے تھے، اس کے بعد واجپئی صاحب (اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم) یہاں آئے اور ہمارے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ لیکن ہم نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کر دی۔ یہ ہماری غلطی تھی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں