بھار ت کی پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں زبردست شکست کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال شروع ہوچکا ہے اور وزیر اعظم نریندر ’مودی کا جادو‘ ختم ہو رہا ہے؟
اشتہار
اسی کے ساتھ حکمران جماعت بی جے پی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ آیا اس شکست کی اصولی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مود ی اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو لینا چاہیے کیوں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے تمام ریاستی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا بھی انہی دونوں رہنماؤں کے سرباندھا جاتا رہا ہے۔
کل 11دسمبر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہندی خطے کی تین انتہائی اہم ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی مجموعی طورپر 282 سیٹوں میں سے 62 اسے انہی تین ریاستوں سے ملی تھیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان کی تمام 25 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان اسمبلی انتخابات کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اس پیش رفت کو ’مودی برانڈ‘ کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ’مودی برانڈ‘ کی چمک دمک کو کس طرح برقرار رکھے۔
سابق وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر لیڈر یشونت سنہا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’مودی کا جادو یقینی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وہ بھی کسی دوسرے عام لیڈر کی طرح ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج نے یہ پیغام دیا ہے کہ مودی ناقابل تسخیر نہیں رہے۔ عوام کو اب یہ حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے کہ مودی بھگوان نہیں ہیں اور انہیں بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام اب کسی خوف کے بغیر آگے بڑھیں گے۔‘‘
باون سال بعد چلی بھارت بنگلہ دیش دوستی ٹرین
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد نے اپنے بھارتی دورے کے دوران کلکتہ کھلنا دوستی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اس دوستی ٹرین کا نام ’میتری 2‘ رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
میتری 2
فی الحال تجرباتی طور پر چلائی گئی ’میتری 2‘ نامی اس ٹرین کی دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کا باقاعدہ آغاز رواں برس جولائی سے ہو گا۔ ٹرین کی روانگی کے وقت موجود لوگوں نے اس کی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔
تصویر: DW/P. Mani
ٹرین دیکھنے کا شوق
اس ٹرین کو بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان نقل و حمل کے نظام کی مشکلات کم کرنے میں ایک اہم ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خواتین بچوں اور دور دراز کے دیہات سے آنے والے افراد بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ پہلے بھارتی اسٹیشن پر اس ٹرین کو دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے پہلے ہی جمع ہو گئے تھے۔
تصویر: DW/P. Mani
پھولوں سے استقبال
بنگلہ دیش کے شہر کھلنا سے بھارت آنے والی یہ ٹرین اپنے ساتھ پرانی یادیں بھی لے کر آئی۔ بھارتی اسٹیشن پترا پول پر مقامی رہائشیوں نے ٹرین کا پھولوں سے استقبال کیا۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت بنگلہ دیش دوستی
ٹرین کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کی بنگلہ دیشی ہم منصب حسینہ واجد کی تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ ٹرین کے انجن پر لگے ایک بڑے بینر پر بھارت اور بنگلہ دیش کی دوستی کا ذکر کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
باون سال بعد
سرحد کے اس پار سے باون سال بعد پہلی ٹرین اس لائن پر چلی۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل اس راستے پر ٹرین چلا کرتی تھی تاہم سن 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے دوران اسے بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
اندرونی آرائش
اس ٹریک پر آنے والی آخری ٹرین کا انجن کوئلے سے چلتا تھا جبکہ نئی دوستی ٹرین کا انجن ڈیزل سے رفتار پکڑتا ہے۔ تاہم اس کی اندرونی آرائش بھارت کی دوسری دوستی ٹرین جیسی ہی رکھی گئی ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت آمد
میتری 2 نامی اس ٹرین کے بنگلہ دیش سے بھارت پہنچنے پر اِس ٹرین پر آئے بنگلہ دیشی وفد کا بھارتی ریلوے کے اہلکاروں نے پھولوں کے گلدستوں سے استقبال کیا۔
تصویر: DW/P. Mani
7 تصاویر1 | 7
وزیر اعظم مودی کی اقتصادی پالیسیوں کے نکتہ چیں یشونت سنہا کا تاہم کہنا تھا، ’’بی جے پی میں کسی کے اندر اتنی جرأت نہیں کہ وہ شکست کے لیے مودی کو کھل کر ذمہ دار ٹھہرائے اور امیت شاہ کے استعفے کا مطالبہ کرے۔ پارٹی اس شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔‘‘
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ تمام کامیابیوں کا سہرا اپنے سر لیتے رہے ہیں، اسی طرح اس شکست کی ذمے داری بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ مودی کی مقبولیت برقرار ہے، تو یہ بہت بڑی بھول ہو گی۔
بہرحال بی جے پی کے رہنما عوامی طور پر یہی دعوے کر رہے ہیں کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پارٹی کی آئندہ کامیابی کے امکانات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر رہنما ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ان انتخابات کا آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر لڑے جائیں گے جبکہ ریاستی انتخابات میں مسائل یکسر مختلف ہوتے ہیں۔‘‘
شیو سینا کی انتہا پسندی کا نشانہ بننے والے پاکستانی
ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے حوالے سے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ وہ اپنا غصہ پاکستانی فن کاروں اور کھلاڑیوں پر بھی نکال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
غلام علی کا کنسرٹ
معروف غزل گائک غلام علی کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بھارتی گلوکار جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی کے موقع پر ممبئی میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کرنا تھی۔ شیو سینا کے کارکنوں نے کنسرٹ کے منتظمین کو دھمکی دی کہ یہ پروگرام نہیں ہونا چاہیے۔ مجبوراً منتظمین کو یہ کنسرٹ منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/G. Singh
خورشید قصوری کی کتاب کا اجراء
سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی بھی شیو سینا کے غصے کا نشانہ بنی، تاہم اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ بھارت کی اس دائیں بازو کی ہندو قوم پسند تنظیم، جو کہ ریاست مہارشٹر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف بھی ہے، نے کتاب کے ناشر کے چہرے پر سیاہی پھینک کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ بھارت میں پاکستانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
ڈار پر وار
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے شیو سینا کے حالیہ مظاہرے کے بعد اعلان کیا کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کرکٹ سیریز میں امپائرنگ کرنے والے پاکستانی امپائر علیم ڈار سیریز میں مزید امپائرنگ نہیں کریں گے۔ علیم ڈار نے سیریز کے پہلے تین میچوں میں امپائرنگ کی تھی جب کہ پروگرام کے مطابق انہیں بقیہ دونوں میچوں میں بھی امپائرنگ کرنا تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
بھارتیوں کے پسندیدہ پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم
کٹر نظریات کی حامل ہندو قوم پرست سیاسی جماعت شیو سینا کی طرف سے دھمکیوں اور ممبئی میں واقع بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر دفتر پر دھاوا بول دینے کے بعد بھارت میں پاکستانیوں کے لیے سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وسیم اکرم کو بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین پوری سیریز کے لیے کمنٹری کے فرائض انجام دینا تھے، تاہم وہ اب پاکستان واپس لوٹ جائیں گے۔
تصویر: AP
شعیب اختر بھی
وسیم اکرم کے ساتھ شعیب اختر کو بھی سیریز کے لیے ممبئی میں کمنٹری کرنا تھی۔ راولپنڈی ایکسپریس کہلائے جانے والے اس سابق پاکستانی فاسٹ بولر کا بھی اب ممبئی میں ٹھہرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: AP
کرکٹ ڈپلومیسی انتہا پسندی کا شکار
پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز نے گزشتہ برس ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت دونوں ممالک کو اگلے آٹھ برسوں میں چھ سیریز کھیلنا ہیں۔ تاہم جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکر اور آئی سی سی کے صدر شری نواسن سے ملاقات کے لیے بھارت گئے تو شیو سینا کے کارکنوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر حملہ کر دیا۔
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images
ماہرہ خان اور فواد خان جیسے فنکار بھی
پاکستانی اداکار فواد خان (تصویر میں ان کے ساتھ بھارتی اداکارہ سونم کپور کھڑی ہیں) گزشتہ برس فلم ’خوب صورت‘ کے ذریعے بالی وڈ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان فلم ’رئیس‘ میں معروف بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔ یہ فلم اگلے برس عید کے موقع پر ریلیز کی جائے گی۔ شیو سینا نے دھمکی دی ہے کہ وہ مہاراشٹر میں ماہرہ اور فواد کی فلموں کو ریلیز نہیں ہونے دے گی۔
تصویر: STRDEL/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
ارون جیٹلی کا مزید کہنا تھا، ’’2019 میں مجوزہ عام انتخابات میں رائے دہندگان اس بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ وہ ایک آزمودہ لیڈر پر یقین کرتے ہیں یا غیر مستحکم حکومت دینے والے اور غیر نظریاتی بنیادوں پر قائم اتحاد کو اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔‘‘ جیٹلی نے تاہم اعتراف کیا کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بلا شبہ غیر متوقع تھے اور ’’ہمیں رک کر اپنا احتساب کرنا ہوگا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمران بی جے پی سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے تشویش کا موجب ہیں کیوں کہ ان دونوں رہنماؤں نے الیکشن کے دوران جتنا زور لگایا تھا اور جس طرح تمام حربے آزمائے تھے، اس انتخابی شکست کے بعد ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہے گی اور اگر پارٹی کا ناراض دھڑا سرگرم ہو گیا، تو ان دونوں رہنماؤں کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے جی بی پنت انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پروفیسر بدری نارائن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو بات کرتے ہوئے کہا، ’’ان نتائج نے مودی کی برتری کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب ان کی زبان بدل جائے گی، لہجہ نرم ہو جائے گا اور وہ جارحانہ تقریروں کے بجائے موضوعات پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے۔‘‘ پروفیسر نارائن کا کہنا تھا، ’’وزیر اعظم مودی کو اپنی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وقت کی آواز ہے۔‘‘
مودی کی جیت کی خوشیاں
بھارتی انتخابات کئی معنوں میں تاریخی رہے۔ ان میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی اور جو نتائج سامنے آئے ہیں انہوں نے بھی کئی برسوں کے ریکارڈ توڑے۔ گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار کسی ایک جماعت کو اس قدر واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters
مودی کا بھارت
بھارت بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 543 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
تصویر: Reuters
دہلی میں آمد
جیت کے بعد ہفتے کے روز نریندر مودی کا نئی دہلی میں پرجوش استقبال کیا گیا ہے۔ اس جیت کی ریلی کے دوران پارٹی کے حامیوں سے سڑکیں بھری ہوئی تھیں۔
تصویر: Reuters
جیت کے لڈو
ممبئی میں بی جے پی کے مسلم کارکن مٹھائی بانٹ کر پارٹی کی جیت کا جشن مناتے ہوئے۔ مبصرین کی رائے میں گجرات کے فسادات کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مودی کے مخالف تھی۔
تصویر: UNI
جشن اور پٹاخے
بی جے پی کی تاریخی جیت کا جشن مناتے ہوئے کارکنوں نے آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا۔ چنئی میں لی گئی اس تصویر میں کارکن پٹاخوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔
تصویر: UNI
بنارس میں جیت
بنارس میں ڈھول بجا تے ہوئے بی جے پی کی جیت کے جشن میں ڈوبے کارکن۔ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی یہاں سے بھی الیکشن جیتے ہیں۔ مودی کی جماعت نے ریاست اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کو نہ صرف ہرایا ہےبلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہاں سے تو اس پارٹی کا تقریباﹰ خاتمہ ہی ہو گیا ہے۔
تصویر: UNI
صدر دفتر میں گانے
نئی دہلی میں بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر ناچتے اور گاتے ہوئے کارکن۔ پارٹی کے صدر دفتر میں جمعہ کی صبح سے ہی کارکنوں نے جشن منانے کا آغاز کر دیا تھا۔
تصویر: UNI
بِہار میں بَہار
ریاست بِہار کے دارالحکومت پٹنہ میں بھی بی جے پی کے کارکنوں نے ’مودی بَہار‘ کا جشن منایا۔ ریاست بِہار میں بھی این ڈی اے نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تصویر: UNI
جیت کی ہولی
ویسے تو بھارت میں ہولی ایک مذہبی تہوار ہے لیکن اتر پردیش کے درالحکومت لکھنوء میں لوگوں نے جیت کی ہولی منائی۔ قوم پرست نریندر مودی کو ہندو مذہبی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
تصویر: UNI
ملک بھر میں مودی لہر
مودی پوری طرح حکومتی اتحاد (یو پی اے) کو مات دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کو ریکارڈ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں اور انہیں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ گوہاٹی میں پارٹی کے کارکن نتائج کے بعد جشن مناتے ہوئے۔
تصویر: Reuters
اسٹاک مارکیٹ میں دھوم
بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو تیز ی کے ساتھ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ لوگوں کو امید ہے کہ نئی حکومت معیشت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگی۔ مودی کی جیت کا اثر روپے کی قدر پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ جمعہ کو بھارتی روپے کی قدر مستحکم رہی۔