1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مولانا طارق جمیل ایک نئی مقدس گائے ہیں؟

24 اپریل 2020

پاکستان کے مشہور مولانا طارق جمیل کی طرف سے میڈیا کو جھوٹا قرار دینے پر ملکی میڈیا کا نرم رویہ کئی سیاسی اور سماجی حلقوں کی تنقید کی زد میں ہے۔ کئی حلقے انہیں پاکستانی کی نئی مقدس قرار دے رہے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/S. Mazhar

مولانا طارق جمیل نے کل بروز جمعرات تمام میڈیا کو اس وقت جھوٹا قرار دیا جب وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے ایک چندہ مہم میں ٹیلی تھون میں شرکت کر رہے تھے۔ ناقدین کا دعوی ہے کہ انہوں اس مہم میں سرکار سے قربت مزید بڑھانے کے لیے عمران خان کی تعریف میں قصیدے بھی پڑھے، جسے کئی حلقے ہدف تنقید بنارہے ہیں۔

تصویر: DW/U. Fatima

حالیہ متنازعہ بیان کے بعد ملک کے کئی حلقے طارق جمیل پر کم  اور پاکستانی میڈیا پر زیادہ چرغ پا ہیں۔ ان کے خیال میں ذرائع ابلاغ مولانا کو ایک نئی مقدس گائے سمجھتا ہے۔ انگریزی روزنامہ دی نیوز کے کالم نگار اور تجزیہ کار عامر حسین کا خیال ہے کہ میڈیا طارق جمیل سے خوفزدہ ہے،''طارق جمیل بظاہر بہت خوش اخلاق ہیں لیکن میڈیا کو معلوم ہے کہ ان کی پشت پر طاقت ور حلقے ہیں۔ اور اس ملک میں نہ ہی ان طاقت ور حلقوں پر تنقید ہو سکتی ہے اور نہ ان کے پلانٹڈ مولویوں پر۔ تو میڈیا کو اپنی حدود کا علم ہے۔ اسی لیے انہوں نے مولانا پر سخت تنقید نہیں کی۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مولانا کے مقتدرہ حلقوں میں بہت اچھے مراسم ہیں،''میرا خیال ہے کہ میڈیا نے رویہ نرم رکھا کیوں کہ مولانا کے طاقت ور حلقوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ تبلیغی جماعت کے خواص سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں کاروباری اور امیر افراد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی پبلک ریلشننگ بھی بہت اچھی ہے اور وہ کئی سیٹھوں سے بھی قربت رکھتے ہیں۔ تو یہ سارے عوامل نے شاید میڈیا کو مجبور کیا تو وہ ہاتھ ہولا رکھے۔‘‘

تصویر: imago images/Pacific Press/R.S. Hussain

پاکستانی میڈیا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیاست دانوں سے بہت سخت سوالات کرتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتیں یہ بھی الزام لگاتی ہیں کہ وہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی لائن کو ٹو کرتا ہے اور سیاست دانوں کو بدنام کرتا ہے۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے صنعتی پیداوار آیت اللہ درانی کا کہنا ہے کہ اگر ایسا بیان سابق صدر آصف علی زرداری نے دیا ہوتا تو میڈیا ابھی تک انہیں اور پی پی پی کو کافر قرار دے چکا ہوتا،''لیکن طارق جمیل اور تبلیغی جماعت کی طاقت کا لوگوں کو اندازہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل محمودکہاں بیٹھیں ہیں۔ اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ تو ان پر تنقید کیسے ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل ناصر ملک کا کہنا ہے میڈیا کا نرم رویہ اس تاثر کو مضبوط کرے گا کہ طارق جمیل ایک نئی مقدس گائے ہیں، جو تنقید سے بالا تر ہیں،''صحافتی تنظیموں کو فوری طور پر اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بیوروکریٹس سے لے کر آرمی آفیسرز تک طارق جمیل کے چاہنے والوں میں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں۔‘‘

تاہم تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد طارق جمیل کا دفاع کرتے ہیں۔ جماعت سے وابستہ ایک کراچی کے عہدیدار سید طارق ہاشمی نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوال یہ ہے کہ کیا ان کا بیان حقائق کے منافی ہے۔ کیا میڈیا جھوٹ نہیں بولتا۔ کئی معروف اینکرز دو ہزار آٹھ سے تیرہ تک یہ کہتے رہے کہ پی پی پی کی حکومت آج گرے گی یا کل گرے گی لیکن اس نے پورے پانچ سال حکومت کی۔ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کو بھی کئی مرتبہ میڈیا نے مروایا لیکن وہ درحقیقت زندہ تھے۔ تو کئی کتابیں ایسے جھوٹ پر لکھی جا سکتیں ہیں۔ اور مولانا نے بالکل درست فرمایا ہے۔‘‘

تصویر: DW/U. Fatima

مولانا طارق جمیل کون ہیں؟

مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے ایک اہم رکن ہیں۔ ان کے بقول وہ زمانہ طالب علمی میں کافی جدت پسند ہوتے تھے اور انہیں میوزک سمیت کئی چیزوں سے لگاؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور تبلیغی جماعت کی سرکردہ اور اہم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نامی گرامی شخصیات کو تبلیغی جماعت میں لے کر آئے یا انہیں مذہبی بنایا، جیسا کہ معروف گلوکار جنید جمشید۔ ان کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا کرکٹرز پر بھی بہت اثر ورسوخ ہے اور ایک دور میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کچھ ناقدین نے طنزیہ اسے رائے ونڈ کی ٹیم بھی کہا۔

طارق جمیل صاحب نے مشہور بالی وڈ اداکار عامر خان سے بھی ملاقات کی اور وہ پاکستانی اداکارہ وینا ملک کو بھی مذہب کی طرف راغب کرنے کوشش کرتے رہے۔

طارق جمیل کے کاروباری، عسکری اور سیاسی حلقوں سے بھی قریبی مراسم رہے اور نواز شریف سے لے کر عمران خان تک وہ سب ہی کے قریب رہے۔ وہ اس قربت کو اپنی غیر جانبداری قرار دیتے ہیں جب کہ ناقدین اسے موقع پرستی اور چاپلوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں کئی سرکاری اداروں میں لیکچرز کے لیے بھی دعوت دی جاتی ہے جب کہ وہ پاکستان کے کئی ٹی چینلوں پر بھی جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی دعا کا انداز ان کے عقیدت مندوں کو متاثر کرتا ہے جب کہ ناقدین اسے دھکاوا قرار دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں وہ عمران خان کی حمایت پر خوب تنیقد کا نشانہ بنے۔ یہ تنقید نہ صرف سیاسی اور سماجی حلقوں سے آئی بلکہ جعمیت علماء اسلام سمیت کئی مذہبی تنظیموں نے بھی ان پر نشترکے تیر چلائے۔

’ميڈيا پر غير اعلانيہ قدغنيں لگائی جا رہی ہيں‘

03:34

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں