1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا موٹی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں؟

3 دسمبر 2020

یہ ٹویٹ ایک لڑکی کی تھی، ’’موٹی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں۔ والدین کو چاہیے جیسے ہی، جس بھی عمر کی بیٹی ہو، موٹی ہو جائے تو اسے جان سے مار دیں، یہ ایک حل ہے اس ساری ذلالت سے بچنے کا، نفرت ہو گئی ہے اپنے وجود سے۔‘‘

 DW Urdu Bloggerin Sana Batool
تصویر: DW

کہنے کو یہ صرف ایک سطر ہے لیکن یہ شدید ذہنی اذیت، تکلیف، بے مائیگی اور ان چاہے وجود کے احساس کو چیخ چیخ کے بیان کر رہی ہے۔ لکھنے والی نے یہ ایسے ہی نہیں لکھا، اس نے جو ایک طویل عرصہ سہا، اس درد کوبیان کیا ہے۔ اپنے وجود سے نفرت ہو جانا کوئی عام بات نہیں ہے۔ یہ احساس کہ انسان کا وجود کس قدر غیر اہم ہے کہ وہ اس سے بے زار ہو جائے شدید ڈپریشن کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارا کیا گیا ایک کمنٹ، ہلکا سا مزاح، طنز یا محض بات کرنے کی غرض سے دی گئی بلا ضرورت کی رائے کسی کو کس ذہنی اذیت میں مبتلا کر سکتی ہے، اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔

ہمارے سماج میں اس بات کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے کہ ہمیں کسی کی ظاہری شباہت پہ بات یا طنز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔ بلکہ یہاں گفتگو شروع ہی اس بات سے کی جاتی ہے کہ آپ موٹے ہو گئے ہیں یا پتلے ہو گئے ہیں۔ جیسے جس کا جسم ہے، وہ اس بات سے باخبر نہیں ہے، اسے یہ بات بتانا ضروری ہے۔ نہ ہی اس بات کا شعور ہے کہ وزن میں کمی یا اضافہ کسی بیماری، ڈپریشن، ذہنی مسائل، ہارمونل چینجز کے باعث ہو سکتا ہے، جس میں انسان بالکل بے بس ہوتا ہے۔

ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی باڈی شیمنگ کا شکار رہا ہوتا ہے۔ بچپن میں، سکول میں یا گھر میں ظاہری شباہت کے مطابق الٹے سیدھے نام پکارنا، رنگت کو نشانہ بنانا، قد پہ فقرے کسنا، موٹا یا پتلا ہونے پر طنز کرنا ایک عام سی بات ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ آرام سے کسی کو کہہ دیتے ہیں "ہائے وزن بڑھ گیا "بہت کمزور ہو گئی "۔ یہ بات عام سی ہے ایک چھوٹا سا فقرہ، ہلکا سا طنز، کمنٹ یا یوں ہی زبان کے چسکے کے لیے کہی گئی بات سننے والے پہ کس طرح اثر انداز ہوتی ہے کوئی نہیں سوچتا۔ ایسی بے معنی باتیں کرنے والا خود بھی یہ احساس نہیں کر پاتا کہ اس کے الفاظ نے کسی کی ذہنی اور جذباتی حالت پہ کیا اثر چھوڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جسمانی ساخت کا مذاق؟ مگر کیوں؟

لڑکیوں کے بارے میں جو ایک خوبصورتی کا معیار سیٹ کیا گیا ہے، اس میں ان کا دبلا پتلا ہونا لازم ہے۔ اسے کہیں نہ کہیں دوشیزگی سے جوڑا گیا ہے کہ پتلی ہے تو لڑکی تھوڑا موٹی ہوئی تو عورت۔ بیمار سی سوچ ہے، جو بہت پھیل چکی ہے، یہ وہ سوچ ہے، جو ماڈلنگ اور میڈیا انڈسٹری نے ہم پر تھوپی ہے۔ کسی سے تعلق بنانے میں بھی یہ بات اہم گردانی جاتی ہے کہ لڑکی خوبصورت اور دبلی پتلی ہو۔ اسی وجہ سے بچیاں ٹین ایج سے ڈائیٹنگ شروع کر دیتی ہیں جبکہ اسی عمر میں ہارمونل چینجیز کی وجہ سے جسم میں خاصی تبدیلی آ رہی ہوتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غذائی کمی کا شکار ہو کے اور مسائل میں الجھ جاتی ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں جو رشتہ دیکھنے کا رواج ہے اس میں جس طرح سے لڑکی کو جانچا جاتا ہے کہ رنگت بھی گوری ہو، قد لمبا، تیکھے نقوش، دبلی پتلی، بے تحاشہ حسین اور ساتھ ہی ماہر کک ہو، گھر بھی سنبھالے، ملازمت ہو تو سونے پہ سہاگہ اور اف بھی نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیے: میڈیا میں جسمانی خوبصورتی کے معیارات ذہنی دباؤ کا سبب

ایسے رشتہ دیکھنے کے لیے جانے والی آنٹیاں جس طرح لڑکی کے گھر جا کے کھانے اڑاتی ہیں اور پھر جو اپنی سوچ کا اظہار کرتی ہیں اس کی وجہ سے لڑکیاں اپنی ظاہری صورت کی وجہ سے جس اذیت کا شکار ہوتی ہیں، وہ الگ کہانی ہے۔کئی لوگ اسی وجہ سے خاندانی تقریبات میں جانا اور لوگوں سے ملنا ملانا چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ بات موضوع گفتگو نہ بنے کہ وہ دکھنے میں کیسے ہیں؟ اس طرح سے ان کی سماجی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

موٹاپے کا احساس بچوں میں اتنی شدت سے پیدا کر دیا جاتا ہے کہ وہ کبھی نارملائز نہیں ہو سکتے۔ اکثر وہ لوگ، جو اس مسئلے کا شکار ہوں، بااعتماد ہوں بھی تو خوامخواہ کسی کے کہنے سے پہلے ہی اپنا مذاق اڑانے لگتے ہیں تاکہ ان کے بارے میں کوئی بات نہ کہی جائے۔

اب پلس سائز ماڈلز کا کانسپٹ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ یہ ایک اچھا تصور ہے کہ جسامت جیسی بھی ہو، اسے اون کیا جائے، ضروری نہیں کہ اسے بدلا جائے۔ آپ اپنی سکِن میں رہتے ہوئے گروم ہو سکتے ہیں اور طے کردہ سٹینڈرڈ کو توڑتے ہوئے اپنا معیار حسن بھی بنا سکتے ہیں۔

 پاکستان میں کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی یہ کام کر رہی ہیں۔ لیکن ہم دوستی کے نام پہ یا اپنایت ظاہر کرتے ہوئے، دوسروں کو پیار جتانے کے چکر میں ان کی جسامت پہ ایسے حملے کر جاتے ہیں، جو دل و دماغ پہ گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ بلاوجہ کی شرمنگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی سطح پہ رہتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں پر 'اس طرح مہربان ہونے‘ کی بجائے اپنے کام سے کام رکھنے کی ضرورت ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں