کیا میرکل کی مہاجرین پالیسی ان کی شکست کا سبب بن سکتی ہے؟
شمشیر حیدر Jefferson Chase
24 جولائی 2017
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنی مہاجر دوست پالیسیوں کے باعث دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا، تاہم اب آئندہ انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے امیدوار مارٹن شلز بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
اشتہار
انگیلا میرکل آئندہ عام انتخابات میں چوتھی مرتبہ وفاقی چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار مارٹن شُلز کی نامزدگی کے فوراﹰ بعد ان کی مقبولیت نمایاں تھی تاہم اس کے بعد سے میرکل کی مقبولیت میں اضافہ جب کہ شُلز کی مقبولیت میں کمی ہو رہی تھی۔
اس صورت حال میں شُلز میرکل کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی مہینوں سے میرکل کی کسی کمزوری کی تلاش میں تھے۔ اتوار کے روز جرمنی کے کثیر الاشاعتی اخبار ’بلڈ‘ کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں آخرکار بائیں بازو کے سیاست دان مارٹن شُلز نے دائیں بازو کے میرکل مخالف جرمن حلقوں کی طرح انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
شُلز نے خاص طور پر مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو جرمنی آنے کی اجازت دینے کے حوالے سے میرکل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا، ’’سن 2015 میں ایک ملین سے زائد مہاجرین جرمنی آئے، حکومت نے ان میں سے زیادہ تر کی مانیٹرنگ نہیں کی۔ چانسلر نے آسٹریا میں موجود تارکین وطن کے لیے جرمن سرحدیں انسانی بنیادوں پر کھولیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس بارے میں انہوں نے دیگر یورپی ممالک کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اب اگر ہم نے اس ضمن میں اقدامات نہ کیے تو ہمیں دوبارہ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب میرکل نے اپنی انتخابی مہموں میں جرمن عوام سے وعدہ کیا ہے کہ جرمنی میں آئندہ مہاجرین کا ایسا بحران پیدا نہیں ہو گا۔ سن 2015 کے بعد سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے تاہم مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی صورت حال اور افریقی ممالک کے معاشی حالات کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کی جانب مہاجرت میں پھر سے اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/S. Haider
7 تصاویر1 | 7
دو برس قبل جب جرمنی میں مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا تو میرکل اور ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کی عوامی مقبولیت کافی کم ہو گئی تھی۔ اس وقت کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اسّی فیصد سے زائد جرمن عوام کی رائے یہ تھی کہ مہاجرین کی صورت حال میرکل حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین گزشتہ برس مہاجرین سے متعلق معاہدہ طے پانے کے بعد بلقان کی ریاستوں کے ذریعے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ تاہم لیبیا سے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اس برس نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
میرکل اور ان کی سیاسی جماعت انتخابات سے قبل مہاجرین کے بحران کی عوامی حمایت میں کمی کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہيں اور اس وقت میرکل کو مارٹن شُلز کے مقابلے میں پندرہ فیصد زائد عوامی حمایت حاصل ہے۔
تاہم قدامت پسند جرمن سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اب مارٹن شُلز بھی میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو ہدف تنقید بنا کر عوامی حمایت میں اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایس پی ڈی کی اس نئی حکمت عملی سے میرکل کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے، اس کا فیصلہ جرمن عوام ستمبر کے انتخابات ہی میں کریں گے۔ فی الحال میرکل گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں اور ان کی جانب سے شُلز کی حالیہ تنقید پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
رواں برس جرمن سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال فیصلہ ہو گا کہ اگلا جرمن چانسلر کون ہو گا؟ اس مرتبہ چوبیس ستمبر کے وفاقی الیکشن میں 61.5 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
وفاقی الیکشن کا سال
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں تو دوسری طرف عوامیت پسند سیاسی پارٹی اے ایف ڈی مہاجرت کے بحران کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک جرمن سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
تصویر: Getty Images
چھبیس مارچ، زارلینڈ کے صوبائی الیکشن
فرانس کے ساتھ متصل چھوٹے سے جرمن صوبے زارلینڈ کے عوام نے چھبیس مارچ کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اکاون نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان کی وزیر اعلیٰ کرسچن ڈیموکریٹ Annegret Kramp Karrenbauer ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ بھی اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Becker&Bredel
سات مئی، وفاقی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن
شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن میں میرکل کی جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اس مرتبہ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کی پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس صوبے میں سکونت پذیر ڈینش شہریوں کو بھی اس الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 69 نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان میں ایک ڈینش اقلیتی پارٹی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
چودہ مئی، نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں انتخابات میں میرکل کی غیر معمولی کامیابی
جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چودہ مئی کے علاقائی الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت نے میدان مار لیا۔ یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جہاں سترہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس آباد ہیں۔ اس صوبے کے الیکشن وفاقی انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو پارٹی اس صوبے میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، اس کے وفاقی الیکشن میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
انیس جون، ’کون سی پارٹیاں الیکشن لڑنا چاہتی ہیں‘
وفاقی الیکشن سے ستانوے دن قبل ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کو باقاعدہ طور پر بتانا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اس مرتبہ انیس جون کی شام چھ بجے تک الیکشن میں حصہ لینے کی خواہمشند تمام پارٹیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ جرمن دفتر شماریات کے سربراہ Roderich Egeler الیکشن کی عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
سات جولائی فیصلے کا دن، ’کون سی سیاسی جماعتیں اہل ہیں‘
اس مرتبہ جرمن وفاقی انتخابات سے 79 دن قبل ایسی سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا، جو الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کے اس فیصلے پر اعتراض ہوتا تو وہ چار دنوں کے اندر اندر آئینی عدالت سے رجوع کر سکتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
سترہ جولائی، امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا آخری دن
وفاقی الیکشن سے 69 دن پہلے تمام سیاسی جماعتوں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا کون سا امیدوار کون سے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس مرتبہ سترہ جولائی تک تمام پارٹیوں نے اس تناظر میں اپنی فہرستیں الیکشن حکام کے حوالے کر دیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
ستائیس جولائی، آئینی عدالت کے فیصلے کا دن
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے اگر کسی چھوٹی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس نے آئینی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ستائیس جولائی کو جرمنی کی آئینی عدالت فیصلہ سنانا تھا کہ وہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ کسی پارٹی الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
تیرہ اگست، انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا دن
جرمنی میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہموں کا آغاز صرف تبھی کر سکتی ہیں جب الیکشن کی تاریخ میں چھ ہفتوں سے ایک دم کم رہ جائے۔ کئی ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی میں اس مرتبہ تیرہ اگست سے سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی اپنی انتخابی مہموں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
بیس اگست، کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے؟
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل ووٹر لسٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہوتا ہے۔ یوں جرمنی میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا 61.5 ملین بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert
تین ستمبر، الیکشن سے تین ہفتے قبل
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے تین ہفتے قبل تمام ووٹرز کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ایسے شہری جنہوں نے ابھی تک اپنا اندارج نہیں کرایا، وہ اس موقع پر ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ایسے ووٹر جو ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی الیکشن حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
اٹھارہ ستمبر، ووٹنگ کے عمل کی تیاری شروع
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز کی تقسیم، پولنگ بوتھوں کے قیام اور دیگرسازوسامان کے حوالے سے کام میں تیزی آ جاتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ ان تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی دوران مقامی انتظامیہ کو ووٹرز کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کس مقام پر پہنچنا ہے۔ پولنگ کے 36 گھنٹے قبل تک شہریوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرا لیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
چوبیس ستمبر، ووٹنگ کا دن
اس برس چوبیس ستمبر کے دن جرمنی میں وفاقی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کی جائے گی۔ اس دن اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور بڑے بڑے ہالوں کے علاوہ دیگر کئی مقامات کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں بدل دیا جائے گا۔ پولنگ کا یہ عمل صبح آٹھ بجے تا شام چھ بجے جاری رہے گا۔ اسی رات ہی الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پچیس ستمبر، خوشیاں اور غم
الیکشن حکام کی طرف سے تمام ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد الیکشن کے اگلے دن ہی باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں خوشیاں مناتی ہیں جبکہ شکست خوردہ کچھ افسردہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
چوبیس اکتوبر، نئی جرمن پارلیمان کا اجلاس
جرمنی میں نئی منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس الیکشن کے دن کے ایک ماہ کے اندر اندر ہونا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ نئی پارلیمان کا اجلاس چوبیس اکتوبر سے قبل ہی منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مذاکرات شروع کرتی ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ممبر پارلیمان چانسلر کے عہدے کے لیے خفیہ طور پر رائے شماری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چوبیس نومبر، اگر کوئی شکایت ہے تو؟
جرمنی میں اگر کسی پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسی کسی شکایت کو چوبیس نومبر سے قبل ہی درج کرانا ہو گا۔ جرمن وفاقی صدر، سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمشنر (تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) یا کوئی بھی ووٹر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔