1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا نئی اسمبلی چل پائے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
13 اگست 2018

پاکستان میں آج اراکینِ قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آیایہ اسمبلی چل پائے گی؟ تجزیہ نگاروں کی رائے میں اسمبلی میں بہت سے نامی گرامی افراد کی کمی محسوس کی جائے گی۔

Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی دھاندلی شدہ انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی ہے اور اس کے حوالے سے آئینی اور قانونی سوالات اٹھتے رہیں گے،’’ ان انتخابات سے پہلے دھاندلی کی گئی اور انتخابات کے بعد بھی جس طرح ووٹ کے تقدس کو پامال کیا وہ دنیا نے دیکھا۔ لیکن اس کے باوجود جو کٹھ پتلی حکومت بنانا چاہتے تھے وہ آج سادہ اکثریت کے لیے بھی دوڑیں لگا رہے ہیں۔ تما م طرح جبر، دھونس اور دھاندلی کے باوجود نواز شریف نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ کے قریب ووٹ لیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک اسٹیبلشمنٹ کی پسند کا بندہ اقتدار میں آگیا لیکن کیا یہ بندہ عالمی اسٹیبلشمنٹ یا عالمی اداروں سے بھی نمٹ سکے گا، یہ بات کچھ ہی مہینوں میں واضح ہوجائے گی۔‘‘

تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/M. Reza

انہوں نے مزید کہا اس طرح کی اسملبیاں بن جاتی ہیں لیکن پھر ان کے نتائج قوم کو بھتنے پڑتے ہیں،’’پاکستان میں اس سے پہلے بھی اس طرح کی اسمبلیاں بنتی رہی ہیں جیسا کہ مشرف کے دور میں بھی ایسی ایک اسمبلی بنی تھی۔ لیکن ایسی اسمبلیوں کے نتیجے میں جو مسائل آتے ہیں، وہ پوری قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ حقیقی عوامی رہنماؤں کو زبردستی ہرایا گیا۔ اس بات کا افسوس ہے کہ میں اسمبلی میں نہیں ہوں لیکن میں اپنے رہنما نواز شریف کے ساتھ ہوں۔‘‘


پی ٹی آئی اس جیت کا ابھی تک جشن منارہی ہے اور اس کے ارکان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے لیکن عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی کی مدت مکمل اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب پی ٹی آئی اپنے وعدے پورے کرے۔ پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی مکیش کمار نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر عمران خان نے اپنے وعدے پورے کیے اور اچھے بیورکریٹ اور وزیروں کا انتخاب کیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوں گے اور اسمبلی صیح طریقے سے چلے گی لیکن اگر وہ خوشامدیوں میں گھر گئے اور اپنے وعدے پورے نہیں کیے تو پھر دشواریاں ہوں گی۔ نمبر گیم مسئلہ نہیں ہے وعدے پورے کرنا مسئلہ ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ عمران خان برے لوگوں میں گھر جائیں کیونکہ یہ کسی بھی رہنما کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ عمران خان سارے لوگوں کو لے کر کس طرح چلتے ہیں۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal


نوے کی دہائی میں قوانین میں ترمیم کر کے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے فلور کراسنگ کا دروازہ بند کر دیا تھا لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اب اس کا دروازہ غیر محسوس طریقے سے کھول دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان کے خیال میں طاقت کے زور پر کوشش کی جائے گی کہ لوگ عمران خان کے ساتھ رہیں،’’اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مختلف طریقے استعمال کر کے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا ہے اور اب یہ کوشش کی جائے گی کہ سیاسی جماعتوں میں فاروڈ بلاکس بنوائے جائیں اور لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ عمران خان کے ساتھ رہیں۔ عمران خان کا بھی یہ امتحان کے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیسے چلتے ہیں۔ اگر انہوں نے آزادانہ فیصلے کیے تو پھر انہیں چلتا کیا جائے گا اور اگر انہوں نے ہاں میں ہاں ملائی تو پھر شاید وہ چل جائیں۔ لیکن اگر آزادانہ فیصلوں کے نتیجے میں انہیں نکالا جاتا ہے، تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک اور حریف تیار ہوجائے گا، جو ملک کے لیے شاید بہتر نہ ہو۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں