کیا نواز شریف اب بھی بادشاہ گر ہیں؟
19 نومبر 2022پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری سمیت بہت سے اہم سیاسی اور غیر سیاسی فیصلوں کے لیے کئی حلقے لندن کی طرف دیکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان جیسی مقبول قیادت کی ملک میں موجودگی میں کیا سچ مچ نواز شریف کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ملک کے سیاسی منظر نامے کو اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دے سکیں؟
پاکستان کا وزیراعظم کون ہو گا، آرمی چیف کون بنے گا؟ ملک کا صدر کس کو بننا ہے، کسے عہدے پر رہنا ہے اور کسے گھر بھجوانا ہے، اپوزیشن اتحاد میں ڈیڈ لاک کا خاتمہ کیسے کروانا ہے؟ نواز شریف ماضی میں یہ سارے فیصلے خود کرتے رہے ہیں۔
لیکن اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے بدلتے ہوئے حالات میں کیا نواز شریف اب بھی اتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
کیا نواز شریف بادشاہ گر ہیں؟
سینیئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ نواز شریف بادشاہ گر ہیں یا نہیں لیکن میں یہ ضرور کہ سکتا ہوں کی وہ پاکستانی سیاست میں اب بھی ’ریلیوینٹ‘ ہیں۔ ان کو سیاست سے نکالنے اور اہم معاملات سے باہر رکھنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ ناکام رہی ہیں۔ اب وہ خود بادشاہ بنتے ہیں یا کسی کو بادشاہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ سب بعد کی باتیں ہیں ہمیں حتمی طور پر یہ جاننے کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
کیا نواز شریف کی روایتی سیاست عمران خان کا مقابلہ کر سکے گی؟
اس سوال کے جواب میں مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کی مقبولیت گھٹتی بٹھتی رہتی ہے۔ چند ماہ پہلے اقتدار کے دنوں میں عمران خان کی مقبولیت کافی کم ہو گئی تھی ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کو چھوڑنا چاہ رہے تھے۔لیکن ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہو گیا۔
مجیب الرحمٰن شامی نے کہا، ’’اسی طرح نواز شریف مشرف دور کے بعد جب ملک چھوڑ کر چلے گئے تو یہ تاثر عام تھا کہ ان کی سیاست اب ختم ہو گئی ہے۔ لیکن وہ ملک میں واپس آئے اور دوبارہ وزیر اعظم بھی بنے۔ اس لیے کسی شخص کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں قطعیت کے ساتھ حتمی رائے دینا آسان نہیں ہے۔‘‘
کیا نواز شریف اپنی سیاسی میراث کامیابی کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کر سکیں گے؟
مجیب شامی کہتے ہیں کہ نواز شریف بڑی حد تک اپنی سیاسی میراث مریم نواز کو منتقل کر چکے ہیں اور اب مریم نواز ہی ان کی جانشین ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ وہ سیاسی حقیقت ہے جسے بڑی حد تک تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔ اب مریم نواز کیا اس سیاسی میراث کو سنبھالتی ہیں، وسعت دیتی ہیں یا آگے بڑھاتی ہیں اس کا انحصار مریم نواز کی اپنی صلاحیتوں پر ہو گا۔‘‘
نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے حامی یا مخالف؟
نواز شریف کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے زیرسایہ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا پھر وہ اسٹیبلشمنٹ پر برستے بھی نظر آئے۔ کبھی وہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں اور کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کر کے اپنے بھائی کو وزیراعظم بنوانے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
مستقبل کا مورخ نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا رائے رکھے گا؟
اس سوال کے جواب میں شامی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا تعلق دونوں کی اپنی اپنی ضرورتوں کے تابع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یہ معاملات عشق والے نہیں ہوتے کہ پائیدار ہوں۔ جب تک ضرورت ہوتی ہے تعلق رہتا ہے اور جب ضرورت ختم ہوجائے تو یہ تعلق بھی نہیں رہتا۔ سیاست دان دیکھتے ہیں کہ ان کو فائدہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ہو گا یا ان کی مخالفت سے۔ وہ حالات دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں یہی حال اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ دونوں فریقوں کا تعلق ان کی ضرورتوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے مستقبل کا مورخ بھی نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کو شاید ایسے ہی دیکھ پائے۔‘‘
عمران خان، نواز شریف کی مشکل
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ان کا موجودہ حریف اُن سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہی جن سے میاں صاحب کا ماضی میں سامنا رہا ہے۔
عمران خان کی صورت میں اب ایک ایسا حریف ان کے مد مقابل ہے جو روایتی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اسی لیے میاں صاحب کو ان سے معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نواز شریف کا دور اقتدار اور سیاست
تین مرتبہ پاکستان کی وزارت اعظمٰی کے عہدے پر براجمان رہنے والے میاں محمد نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اُن شخصیات میں شامل ہیں جنہیں غیر معمولی مقبولیت تو حاصل ہوئی لیکن ساتھ ہی وہ ہمیشہ انتہائی متنازع بھی رہیں۔
ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ مجموعی طور پر سب سے زیادہ عرصہ (نو سال) تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔ وہ تین مرتبہ اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے اور تینوں مرتبہ مختلف الزامات کی پاداش میں وزرات اعظمٰی سے ہٹائے بھی گئے۔
ہر مرتبہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مکمل نا اُمیدی کے باوجود وہ اپنے دور اقتدار میں بنائے گئے اثر و رسوخ اور سیاسی جوڑ توڑ میں اپنی غیر معمولی مہارت کے باعث اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب رہے۔
نواز شریف اور اُن کے خاندان کے سیاسی سفر میں بنیادی طور پر مقابلہ ان کی حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہی رہا۔ یہ دونوں جماعتیں کبھی سیاسی کشمکش اور کبھی سیاسی افہام و تفہیم کے ساتھ ملکی اقتدار میں حصہ دار رہیں۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستانی سیاست میں عمران خان کی آمد سے آنے والی تبدیلیوں نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو اس بُری طرح سے متاثر کیا۔
انہیں نہ صرف اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ میاں نواز شریف کی سیاسی مقبولیت، اثر و رسوخ اور ان کی اگلی نسل کا سیاسی مستقبل سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے اور وہ اب اسے بچانے کی تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو اپنی وزارت اعظمٰی کے تینوں ادوار میں اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ اختیار کرنے کی شہرت بھی حاصل رہی۔ ان کی جماعت اور ان کے حامی سیاسی حلقے 1998 میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفٰی لے لینے کو ان کا بڑا کارنامہ گردانتے ہیں۔
کئی تجزیہ نگاروں کے بقول نواز شریف کے تمام ادوار فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ سے عبارت ہیں۔
جب جنرل پرویز مشرف پاک فوج کے سربراہ تھے تو نواز شریف نے اُن کی غیر موجودگی میں فوج کی کمان تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک کو ایک اور مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا۔
بعد ازاں انہیں طیارہ سازش کیس میں سزا بھی ہوئی۔ لیکن پاکستان کے بعض دوست ملکوں کے دباؤ پر یہ سزا ختم ہوئی اور وہ جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔
اپنی اس اسٹیبلشمنٹ مخالف شہرت کے باوجود عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت (جو اس وقت ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی وزارت اعظمٰی میں موجودگی کے ساتھ) اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ از سر نو اپنے تعلقات کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔
جب کہ ن لیگ اور اس کی تمام اتحادی جماعتوں کے لیے واحد چیلنج عمران خان بنے ہوئے ہیں۔
نواز شریف کے ادوار میں ملک میں صنعت کاری اور نج کاری کے معاملات ہوں یا پاکستان کے ایٹمی دھماکے، قرض اُتارو ملک سنوارو کی مہم ہو یا کوآپریٹو سوسائٹیز کا معاملہ، آئینی ترمیموں کے معاملات ہوں یا اسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے قیام کا مئسلہ، کراچی اور حیدر آباد میں آپریشن ہوں یا وکلاء تحریک کی جد وجہد، کارگل کی لڑائی ہو یا طالبان گروپوں سے مذاکرات کا معاملہ نواز شریف ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہے۔
نواز شریف ایک وقت میں ججز بحالی کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے لیکن اس سے قبل اُنہی پر سپریم کورٹ پر حملہ کرانے کا بھی الزام بھی عائد کیا جاتاہے۔
بعض تجزیہ نگار ان کے لیے مرد بحران کے الفاظ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
نواز شریف کے حامی حلقے ان کے اچھے کاموں میں ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے، پاکستان میں بجلی کی قلت دور کرنے اور کاروبار و صنعتی ترقی کو فروغ دینے کو شمار کرتے ہیں۔
جب کہ ان کے مخالف حلقے انہیں اقربا پروری میں ملوث گردانتے رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے میاں نواز شریف کے کئی ملکوں کے سربراہان کے ذاتی تعلقات اور ان کے دور میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو پسند نہیں کیا۔
نواز شریف اور ان کا ماضی
میاں محمد نواز شریف 25 دسمبر 1949ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں محمد شریف کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے اننت ناگ سے تھا، جہاں سے ہجرت کرکے وہ امرتسر کے گاؤں جاتی امراء میں آباد ہوئے۔
تقسیم کے وقت یہ خاندان لاہورآن بسا۔ پہلے لاہور کی امیر بستی ماڈل ٹاؤن میں گھر بنایا پھر لاہور کے نواح میں رائیونڈ کے قریب جاتی امرا نامی ایک بستی بسا کر وہاں رہنے لگے۔ پاکستان آ کر نواز شریف کے بزرگوں نے یہاں کام کا آغاز کیا اور اتفاق گروپ کے نام سے فولاد کا کارخانہ لگایا۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنی تعلیم کا آغاز سینٹ انتھونی ہائی اسکول سے کیا۔ گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد نواز شریف نے اپنے خاندان کے کاروباری گروپ اتفاق گروپ کو جوائن کر لیا۔ ان کا خاندان شکر سازی، ٹیکسٹائل اور لوہے سمیت متعدد شعبوں میں کاروبار کرتا رہا ہے۔
نواز شریف کے چار بچوں میں مریم نواز، اسما نواز، حسین نواز اور حسن نواز شامل ہیں۔ نواز شریف کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ انہیں کرکٹ کھیلنے اور اچھے کھانے کھانا بہت مرغوب ہے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی عروج کا سفر 1981ء میں اس وقت شروع ہوا جب انہیں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کا وزیرخزانہ بنایا گیا۔
سن 1985 میں وہ وزیراعلٰی پنجاب بن گئے اور پھر 1988ء میں مارشل لاء کے خاتمے کے بعد دوبارہ وزیراعلی منتخب ہو گئے۔
حصول اقتدار کی اس کشمکش میں ان پر اپنے ہی وزیراعظم محمد خان جونیجو سے ’بے وفائی‘ کے الزامات بھی لگے۔
سن 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد کی حیثیت سے وہ ملک کے 12ویں وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
نواز شریف کے طرز سیاست کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 10 برس سے بھی کم عرصے میں وہ صوبائی وزیر سے وزیراعظم تک کا سفر طے کرنے میں کامیاب رہے۔ 1993-96 کے عرصہ میں وہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی میں قائد حزب اختلاف رہے۔
سن 1993 میں صدر غلام اسحاق خان، نواز شریف حکومت کے خاتمے کا باعث بنے تھے۔
دوسری مرتبہ سن 1997 میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہو گئے لیکن 1999ء میں جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے تو میاں نواز شریف نے اُن کی غیر موجودگی میں پاک فوج ایک سنیئر افسر لفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بننے پر آمادہ کر لیا اور دوسری جانب مبینہ طور پر یہ احکامات جاری کر دیے کہ جنرل مشرف کے طیارے کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان میں نہ اُترنے دیا جائے۔
ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو پائی اور انہیں ایک مرتبہ پھر حکوت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، نواز شریف پر طیارہ سازش کیس چلا۔ بعد میں جلا وطن ہوئے۔ لیکن سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران ایک مرتبہ انہوں نے وطن واپس آنے کی کوشش بھی کی جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔
ایک ایسے وقت پر جب زیادہ تر سیاسی مبصرین ان کی سیاست کے خاتمے کی پیش گوئیاں کر رہے تھے وہ سیاست میں واپس آئے اور 2013ء میں ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔
اس مرتبہ نواز شریف کے اقتدار کو خطرہ ایک ایسی سمت سے آیا جو خود نواز شریف سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد 2017ء میں انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور 2018ء میں سپریم کورٹ نے انہیں سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ بعد میں نیب نے انہیں کرپشن کے الزامات میں دس برس قید کی سزا سنائی اور اسی برس لندن سے واپسی پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
سن 2019 میں عدالت نے علاج کے لیے انہیں چار ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا اور وہ علاج کی غرض سے لندن روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ لندن میں مقیم ہیں۔
عمران حکومت کی سختیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر نواز شریف پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہو رہے ہیں۔ ان کو سفارتی پاسپورٹ جاری ہو چکا ہے اور ان کے پاکستان واپس آنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔