کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اس رہائی کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر سیاسی کشیدگی کی طرف بڑھ سکتا ہے جب کہ کچھ کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیں گے۔
اشتہار
واضح رہے کہ نواز شریف نے معزول ہونے کے بعد بڑے بڑے جلسے کیے تھے، جس میں انہوں نے ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ہی انہیں سزا دی گئی تھی۔
مسلم لیگ نون اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو فتح سے تعبیر کر رہی ہے۔ پارٹی کے رہنما مشاہد اللہ خان نے اس رہائی پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ انصاف کی فتح ہے۔ ماضی میں بھی عدالتوں سے غلط فیصلے کرائے گئے، جیسے کہ بھٹو کی پھانسی لیکن ایسے فیصلے اب تاریخ کے کچرا خانے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اب کچھ سیکھا بھی جائے گا یا نہیں۔‘‘
مسلم لیگ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ نواز شریف خاموش نہیں بیٹھے گے اور وہ سیاسی سر گرمیوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیں گے۔ پارٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ رہائی کسی ڈیل کانتیجہ نہیں ہے۔ نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس مسئلے پراپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ڈیل کرنی ہوتی تو میاں صاحب کو اتنی پریشانیاں اور مشکلات اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کی ضرور ت تھی۔ ابھی ان کی رہائی ہوئی ہے۔ ہزاروں لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ پہلے میاں صاحب ان سے ملیں گے۔ بعد میں پارٹی ان کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے فیصلہ کرے گی لیکن وہ ہر حالت میں جلسے، جلوس بھی کریں گے اور انٹرویوز وغیرہ بھی دیں گے۔ وہ خاموش نہیں بیٹھے گے۔‘‘
میاں صاحب کے قریب رہنے والے افراد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب خاموش نہیں رہیں گے لیکن کچھ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی جارحانہ سیاست سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی۔
پی ٹی آئی کے رہنما ظفر علی شاہ نے جو ماضی میں میاں صاحب کے بڑے قریب رہے ہیں، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرا تجزبہ یہ کہتا ہے کہ میاں صاحب فوج اور عمران کے خلاف محاذ بنائیں گے۔ اچکزئی، اسفندیار ولی اور دوسرے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ ایسی صورت میں فوج بھی خاموش نہیں بیٹھے گی اور ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھے گی۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر مزاحمت کی سیاست شروع کریں گے: ’’نواز شریف کو معلوم ہے کہ ان کی سیاسی بقاء مزاحمت میں ہے۔ میرے خیال میں وہ سویلین برتری کے لیے ایک بار پھر جدوجہد کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جمہوری قوتوں کو متحد کریں گے۔ جس سے طاقتور حلقے ناراض ہوں گے اور سیاسی کشیدگی بڑھے گے۔‘‘
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیں گے: ’’میرے خیال میں میاں صاحب فوری طور پر ایسی مخالفانہ سرگرمیوں میں شامل
نہیں ہوں گے۔ تاہم وہ انتظار کریں گے کہ عمران اور فوج میں اختلافات ہوں، جو آج نہیں تو کل ہونے ہی ہیں۔ پھر وہ عمران کے خلا ف محاذ بنائیں گے اور ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے ماضی میں پی پی پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا تھا۔‘‘
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔