1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا نواز شریف جی ایچ کیو سے ہاتھ ملائیں گے؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 ستمبر 2018

کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اس رہائی کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر سیاسی کشیدگی کی طرف بڑھ سکتا ہے جب کہ کچھ کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیں گے۔

Bosnien-Herzegowina Pakistans Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Emric

واضح رہے کہ نواز شریف نے معزول ہونے کے بعد بڑے بڑے جلسے کیے تھے، جس میں انہوں نے ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ہی انہیں سزا دی گئی تھی۔
مسلم لیگ نون اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو فتح سے تعبیر کر رہی ہے۔ پارٹی کے رہنما مشاہد اللہ خان نے اس رہائی پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ انصاف کی فتح ہے۔ ماضی میں بھی عدالتوں سے غلط فیصلے کرائے گئے، جیسے کہ بھٹو کی پھانسی لیکن ایسے فیصلے اب تاریخ کے کچرا خانے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اب کچھ سیکھا بھی جائے گا یا نہیں۔‘‘
مسلم لیگ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ نواز شریف خاموش نہیں بیٹھے گے اور وہ سیاسی سر گرمیوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیں گے۔ پارٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ رہائی کسی ڈیل کانتیجہ نہیں ہے۔ نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس مسئلے پراپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ڈیل کرنی ہوتی تو میاں صاحب کو اتنی پریشانیاں اور مشکلات اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کی ضرور ت تھی۔ ابھی ان کی رہائی ہوئی ہے۔ ہزاروں لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ پہلے میاں صاحب ان سے ملیں گے۔ بعد میں پارٹی ان کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے فیصلہ کرے گی لیکن وہ ہر حالت میں جلسے، جلوس بھی کریں گے اور انٹرویوز وغیرہ بھی دیں گے۔ وہ خاموش نہیں بیٹھے گے۔‘‘
میاں صاحب کے قریب رہنے والے افراد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب خاموش نہیں رہیں گے لیکن کچھ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی جارحانہ سیاست سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی۔

مسلم لیگ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ نواز شریف خاموش نہیں بیٹھے گے اور وہ سیاسی سر گرمیوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیں گے۔تصویر: Reuters/F. Mahmood

پی ٹی آئی کے رہنما ظفر علی شاہ نے جو ماضی میں میاں صاحب کے بڑے قریب رہے ہیں، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرا تجزبہ یہ کہتا ہے کہ میاں صاحب فوج اور عمران کے خلاف محاذ بنائیں گے۔ اچکزئی، اسفندیار ولی اور دوسرے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔ ایسی صورت میں فوج بھی خاموش نہیں بیٹھے گی اور ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھے گی۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر مزاحمت کی سیاست شروع کریں گے: ’’نواز شریف کو معلوم ہے کہ ان کی سیاسی بقاء مزاحمت میں ہے۔ میرے خیال میں وہ سویلین برتری کے لیے ایک بار پھر جدوجہد کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جمہوری قوتوں کو متحد کریں گے۔ جس سے طاقتور حلقے ناراض ہوں گے اور سیاسی کشیدگی بڑھے گے۔‘‘
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیں گے: ’’میرے خیال میں میاں صاحب فوری طور پر ایسی مخالفانہ سرگرمیوں میں شامل
نہیں ہوں گے۔ تاہم وہ انتظار کریں گے کہ عمران اور فوج میں اختلافات ہوں، جو آج نہیں تو کل ہونے ہی ہیں۔ پھر وہ عمران کے خلا ف محاذ بنائیں گے اور ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے ماضی میں پی پی پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا تھا۔‘‘

نواز شریف کی رہائی پر ان کے کارکنان جشن منارہے ہیں لیکن سیاسی مبصرین اس رہائی سے اٹھنے والے سوالات پر غور کر رہے ہیں۔تصویر: Reuters/F. Mahmood
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں