ایک ایسے وقت پر جب نواز شریف کی صحت کے حوالے سے متفرق اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، پاکستان کے عوامی حلقوں میں نواز شریف کی ممکنہ بیرون ملک روانگی سے متعلق خدشات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اشتہار
پاکستان مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ میاں محمد نواز شریف کو خود کرنا ہے اور اگر انہوں نے اپنے بیرون ملک علاج کا فیصلہ کیا، تو پارٹی ان کے اس فیصلے کا احترام کرے گی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہم نواز شریف کے فیصلے سے اختلاف کر کے ان پر دباؤ میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔
پاکستان کے سیاسی حلقے اپوزیشن کے احتجاجی مارچ سے چند دن پہلے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی جیلوں سے ہسپتالوں میں منتقلی کو بھی اہم قرار دے رہے ہیں۔ وہ حکومتی حلقے جو جیل میں نواز شریف کو ان کے ذاتی معالجین سے رابطوں کی اجازت دینے کے بھی خلاف تھے، اب ان کے رویے میں اچانک تبدیلی نے کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
عمران خان کی عثمان بزدار کو ہدایت
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو فون کر کے انہیں ہدایت کی ہے کہ نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولتوں کی فراہمی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ وزیر اعلیٰ نے اپنا طیارہ کسی بھی شہر سے ڈاکٹر لانے کے لیے مختص کر دیا ہے جبکہ نواز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والی پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور کے سروسز ہسپتال جا کر خود نواز شریف کی عیادت کی اور ان سے مزید کسی بھی طرح کی سہولیات کی ضرورت کے حوالے سے استفسار بھی کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو نواز شریف کی صحت کے حوالے سے کسی بھی قسم کے منفی بیانات دینے سے بھی منع کر دیا ہے۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومتی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی اور ہنگامی کیفیت ظاہر کر رہی ہے کہ نواز شریف کی حالت کافی تشویش ناک ہے۔ بعض دیگر حلقوں کی رائے میں یہ ساری فضا نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔ سینئیر صحافی شاہین صہبائی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ لگتا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے سبھی افراد لندن جانے والے ہیں۔
لاہور کے سروسز ہسپتال میں علاج
نواز شریف اس وقت لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور پاکستان کے سینئیر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان کے خون میں 'پلیٹ لَیٹس‘ کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی کیوں ہو رہی ہے؟ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے دوران اسیری نواز شریف کو ممکنہ طور پر زہر دیے جانے کے خدشے کا اظہار بھی کیا تھا۔
جمیعت العلمائے اسلام کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کی حالت ایسی ہے کہ اللہ کرے کہ وہ صحت یاب ہو جائیں، لیکن اگر انہیں کچھ ہوا، تو ان کے خلاف نامناسب رویہ اختیار کرنے والی حکومت اور ادارے ہی قاتل کہلائیں گے۔
تعزیت کے لیے کون کون جاتی امرا گیا؟
بیگم کلثوم نواز کی آخری رسومات جمعے کے دن ادا کی جا رہی ہیں۔ جمعرات کے دن ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جاتی امرا پہنچی، جہاں انہوں نے نواز شریف اور ان کے گھر والوں سے تعزیت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Dar
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا ہجوم۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا رش۔ ملک بھر سے ہزاروں لوگ جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
آزاد کشمیر کے صدر اور وزرا بھی نواز شریف سے تعزیت کرنے جاتی امرا پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے آنے والے لوگ دعا مانگتے ہوئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جاتی عمرہ پہنچنے پر سیلفی بنوالے کے خواہش مند کارکنوں کے نرغے میں۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور بھی کے پی کے سے جاتی عمرہ تعزیت کرنے آئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جمعرات کے روز نواز شریف کے گھر کے باہر کسی قسم کی سیکورٹی نہیں تھی اور نہ ہی روایتی پروٹوکول نظر آیا۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نوز شریف کی رہائش گاہ کے باہر کافی دور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود رہیں۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
10 تصاویر1 | 10
بیماری 'طبی سے زیادہ سیاسی مسئلہ‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی بیماری کو ایک طبی مسئلے سے زیادہ ایک سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کی بیماری پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن لگتا ہے کہ معاملات کو 'ذرا بڑھا چڑھا‘ کر میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔
عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے خیال میں اصل بات یہ ہے ملک کے طاقت ور حلقوں نے کسی تصادم سے بچ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی لیے لگتا ہے کہ نواز شریف بغیر کسی مبینہ رقم کی ادائیگی کے ہی جلد ہی ملک سے باہر چلے جائیں گے۔
عدالت میں سزا کی معطلی کی درخواست
جمعرات چوبیس اکتوبر کی سہ پہر ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا کی معطلی کے لیے ایک درخواست اسلام آباد کی ایک عدالت میں دائر کر دی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک انہیں ضمانت پر رہا کر کے پاکستان یا بیرون ملک لیکن مرضی سے اپنا علاج کرانے کی اجازت دی جائے۔ اس درخواست کو قانونی اعتراض کے باوجود عدالت نے سماعت کے لیے منظور بھی کر لیا ہے۔
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔
تصویر: T. Shahzad
5 تصاویر1 | 5
حقائق ہنوز مبہم
روزنامہ 'دنیا‘ کے ایگزیکٹیو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ بات منطقی نہیں لگتی کہ نواز شریف اتنی جدوجہد کے بعد اب یکدم پاکستان سے باہر چلے جانے کا فیصلہ کر لیں گے۔
پاکستان کے سینئیر صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں صورتحال وہ نہیں ہوتی جو دکھائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر افواہوں، غلط فہمیوں اور ابہام کے سائے ہیں۔ نہ تو حکومت اس صورتحال کی وضاحت کر رہی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لے رہی ہے۔‘‘
خالد فاروقی کے مطابق، ''یہ بات سچ ہے کہ نواز شریف بیمار ہیں اور ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود ن لیگ کے بعض حلقے بھی بظاہر یقین سے یہ کہہ رہے ہیں کہ 'اندر ہی اندر کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف بیرون ملک چلے گئے، تو یوں خود نواز شریف کی اپنی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کے مجوزہ احتجاجی دھرنے کو بھی نقصان پہنچے گا۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔