1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا نوبل انعامات آج بھی اہمیت رکھتے ہیں؟

کشور مصطفیٰ  سدرۃالمنتہیٰ
11 اکتوبر 2025

نوبل انعام کو سائنس کی دنیا کا ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کا حقدار قرار دیے جانے والوں کے انتخاب کے طریقہ کار پر سخت تنقید کی جاتی ہے، اور یہ سائنسی ترقی کے بارے میں ایک غلط تاثر بھی دے سکتا ہے۔

اسٹاک ہوم میں سویڈش کیمیا دان، موجد اور تاجر الفریڈ نوبل کا ایک مجسمہ، جو نوبل انعامات کے بانی اور ان کے نام سے منسوب ہے
الفریڈ نوبل جو سویڈن کے نامور کیمیا دان، موجد اور صنعت کار تھے، اور جن کے نام سے نوبل انعامات منسوب ہیں، ان کا ایک سنگی مجسمہ، جو ان کی علمی و فکری میراث کا مظہر ہے۔تصویر: Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images

سن1901 میں، جب پہلا نوبل انعام دیا گیا، سائنس کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ تب سے اب تک سائنسی تحقیق، اس کے دائرہ کار اور اثرات میں انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے: کیا اب وقت آ گیا ہے کہ سائنسی خدمات کے اعتراف کا کوئی نیا، جامع اور عصری طریقہ اپنایا جائے؟

نوبل پرائز کی تاریخ

نوبل انعامات، جو سویڈن کے موجد اور صنعت کار الفریڈ نوبل کی  وصیت کے تحت 1895 میں قائم کیے گئے، دنیا کے سب سے معتبر اعزازات میں شمار ہوتے ہیں۔ الفریڈ نوبل، جنہوں نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا، چاہتے تھے کہ ان کی دولت ان افراد کو دی جائے، جو انسانیت کی بھلائی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔

یہ انعامات ہر سال مختلف شعبوں میں دیے جاتے ہیں لیکن آج کے پیچیدہ اور بین الشعبہ جاتی سائنسی ماحول میں، کیا یہ اعزازات اب بھی وہی معنویت رکھتے ہیں یا ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جو جدید سائنسی کامیابیوں کی بہتر نمائندگی کر سکیں؟

پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام اور یورپ کا تحقیقی سینٹر

04:54

This browser does not support the video element.

یہ انعامات کیمیائی علوم میں، ایجادات اور تحقیقات کے لیے، طب اور فزیالوجی، ادبی کاموں میں شاندار خدمات اور علاج میں پیشرفت کے علاوہ  دنیا میں امن کی کوششوں اور تنازعات کے حل اور معاشی نظریات اور پالیسیوں کے ضمن میں خدمات کے لیے دیے جاتے ہیں۔

اسٹاک ہوم میں واقع شاہی سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کا ایک دلکش منظر، جہاں طبیعیات کے شعبے میں نوبل انعام کا اعلان کیا جانا ہے۔تصویر: Tom Little/REUTERS

نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کو خوشخبری سنانے کا طریقہ کار

ہر سال اکتوبر میں، چند سائنس دانوں کو ایک فون کال سے بیدار کیا جاتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ انہیں فزیالوجی، میڈیسن، طبیعیات یا کیمیا کے نوبل انعام سے نوازنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خوشی اور حیرانی کے ساتھ ساتھ نیند کے خمار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے، نوبل انعام پانے والے اپنے پاجامے پر  شرٹ پہن کر اسٹاک ہوم کی ویڈیو کال میں شامل ہوتے ہیں اور متعلقہ شعبوں میں اپنی زندگی بھر کی تحقیق کی تفصیلات  دنیا کی میڈیا کو چند منٹوں میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

 صحافی پھر ''کوانٹم ڈاٹس‘‘ یا ''انٹینگلڈ فوٹونز‘‘ جیسی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی رپورٹس فائل کرتے ہیں اور پھر سکون کا سانس لیتے ہیں کہ یہ سب اب اگلے سال تک کے لیے ختم ہو گیا۔ اگلے ہفتے تک وہ یہ سب بھول چُکے ہوتے  ہیں۔ یہ لامتناہی نیوز سائیکل کی ایک اور جھلک ہے۔

نوبل پرائز پر اُٹھنے والے سوالات

نوبل انعامات سائنسی دریافتوں کو مقبول بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن یہ سوالات بھی اب جنم لینے لگے ہیں کہ کیا اس انعام کی تقسیم کا اعلان نت نئی سائنسی دریافتوں کے طریقہ کار کے بارے میں غلط تاثر دینے امریکہ اور یورپ کی متعلقہ شعبوں میں دریافتوں سے متعلق برتری اور سائنسی شعبے میں مردوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟

اسٹاک ہوم، سویڈن میں واقع شاہی سویڈش اکیڈمی آف سائنسز میں طبیعیات کے نوبل انعام کے اعلان کی تیاری کے سلسلے میں، اس شعبے کے نوبل انعام کی تختی آویزاں کی گئی ہے۔ یہ منظر 7 اکتوبر 2025 کو منظرِ عام پر آیا۔تصویر: Tom Little/REUTERS

بلاشبہ نوبل انعامات سائنسی دریافتوں کے عروج کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جزباتی لگاؤ ہوتا ہے۔  بھارت میں پبلک ہیلتھ کے پروفیسر راجب داس گپتا کہتے ہیں، ’’یہ انعامات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم ڈی این اے، ویکسینیشن، بگ بینگ اور سب ایٹامک پارٹیکلز کی تھیوریز کے بعد نئی سائنسی پیشرفتوں کے دور میں خوش قسمت ہیں۔‘‘

ادب کے نوبل انعام سے متعلق تین دلچسپ حقائق

01:56

This browser does not support the video element.

کیا نوبل انعامات واقعی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں؟

 نوبل انعامات سائنس کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کے تعلیمی نصاب میں بچوں کو نوبل انعامات کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ ان میں سائنس کے لیے شوق پیدا ہو۔ لیلی گرین برطانیہ میں 11 سے 18 سال کے طلبہ کو بائیولوجی پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اپنی کلاسوں میں نوبل انعامات کا تاریخی پس منظر ضرور سکھاتی ہیں لیکن ہر سال اکتوبر میں ہونے والے انعامات کے اعلانات کو باقاعدگی سے نہیں دیکھتیں۔

انہوں نے کہا، ''ہم نوبل انعامات کو سائنس کے بنیادی تصورات سمجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، وہ دریافتیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں، جو طلبہ کی دلچسپی کو کسی دلچسپ کہانی یا اسکینڈل کے ذریعے اپنی طرف کھینچتی ہیں، جیسے بیری مارشل کی مثال، جنہوں نے خود کو بیکٹیریا سے متاثر کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ السر کا سبب بنتے ہیں۔

تاہم لیلی گرین اس امر کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کہ نوبل انعامات طلبہ کو یونیورسٹی میں سائنس پڑھنے کی ترغیب دینے میں کوئی خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ عام طور پر سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن نوبل انعام جیتنے کی خواہش ان کی متحرک نہیں کرتی۔   

کارولنسکا انسٹیٹیوٹ میں نوبل اسمبلی کی جانب سے 6 اکتوبر 2025 کو اسٹاک ہوم میں فزیالوجی یا طب کے شعبے میں نوبل انعام کا اعلان کیا گیا۔تصویر: Claudio Bresciani/TT/REUTERS

 

نوبل انعامات میں تنوع کی کمی

 نوبل انعامات پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ ان کے حاصل کنندہ کی فہرست میں  تنوع کی کمی اور مغربی سائنسی اداروں کی طرف جانبداری ہے۔ سائنسز میں 15 فیصد سے کم نوبل لاریٹ خواتین ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ سے باہر ممالک کے لوگوں کو سائنس میں نوبل انعام بہت کم ملا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنینوبل لاریٹس کی تعداد کے ضمن میں غالب نظر آتے ہیں، جن کی مجموعی تعداد 468 ہے۔ چین کے پاس آٹھ اور بھارت کے پاس 12 نوبل لاریٹس ہیں۔

سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں، نوبل انعام یافتہ امرتیا سین

01:18

This browser does not support the video element.

ڈاکٹر راجیب داس گپتا ایک ماہرِ طب اور صحتِ عامہ کے پروفیسر ہیں، جو نئی دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔  وہ کہتے ہیں،'' زیادہ تر انعامات حاصل کرنے والے مستحق ہوتے ہیں لیکن یہ فیصلے سیاسی ہوتے ہیں۔  اس میں بہت سے ممالک کے ادارے نظر انداز کیے جا رہے ہیں اور یقینی طور پر نوبل کمیٹیاں جتنی جامع ہونی چاہییں، اتنی نہیں ہیں۔‘‘

 نوبل انعامات عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے انعام یافتہ اداروں کو مزید فنڈنگ دیتے ہیں۔ لیکن داس گپتا نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور دیگر جگہوں کے اداروں کو امریکہ یا یورپ سے مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط ہونا پڑے گا، تب ہی یہ ممالک اپنے تخلیقات کو اس مقابلے میں پیش کر سکیں گے۔

ادارت: امتیاز احمد

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں