بھارت : کشمیرسے دس ہزار نیم فوجی دستوں کی واپسی کا فیصلہ
جاوید اختر، نئی دہلی
20 اگست 2020
بھارت کی مودی حکومت نے کشمیر میں اعتماد بحال کرنے کی کوشش اور یہ پیغام دینے کے مقصد سے کہ حالات معمول پر آرہے ہیں، نیم فوجی دستوں کے دس ہزار جوانوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
دہلی حکومت یہ قدم جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کے ایک سال گزرجانے کے بعد اٹھارہی ہے، جب پچھلے سال پانچ اگست کو اپنے فیصلے کے اعلان سے قبل ریاست میں فورسز کی 400 اضافی کمپنیاں تعینات کردی گئی تھیں۔
حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے مقصد سے اگست سے نومبر 2019 تک چار ماہ کے لیے کشمیر کے تمام حساس مقامات اورسڑکوں پر ہر جگہ نیم فوجی دستے تعینات کردیے تھے تاکہ امن وقانون کی صورت حال کے مسائل اور ممکنہ مظاہروں کو روکا جاسکے۔ بعد میں ان کی تعیناتی کی مدت میں توسیع کردی گئی اور اب ایک سال کے بعد بھارتی وزارت داخلہ نے 100 کمپنیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اب بھی 300 کمپنیاں کشمیر میں تعینات رہیں گی اور ان کی واپسی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اگلے ماہ وزارت داخلہ جائزہ میٹنگ میں کیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیم فوجی دستوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کرکے مودی حکومت یہ دکھانے کی کوشش کررہی ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات اب کشیدہ نہیں ہیں اور چونکہ حالات معمول پر آچکے ہیں اس لیے وہاں اضافی فورسز کی ضرورت نہیں ہے۔
ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل اتپل بھٹاچاریہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات پہلے کے مقابلے اب بہت معمول پر آچکے ہیں۔ وہاں لوگوں کو تشدد پر بھڑکانے والے پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ لوگ دہشت گردی سے نالاں ہیں اور خود دہشت گرد بھی بچنے کے لیے بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ حکومت نے خود بھی کہا تھا کہ کشمیر میں سخت گیر دہشت گردوں کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسے میں وہاں سے فورسز کوجتنا زیادہ ہٹایا جاسکے،بہتر ہوگا۔ سابق اعلی فوجی افسر بھٹاچاریہ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر پولیس خود بھی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بہت اچھا کام کررہی ہے اور وہ حالات کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
خیا ل رہے کہ مودی حکومت نے اس ماہ کے اوائل میں جموں و کشمیر کے بیوروکریٹ اور پہلے لفٹننٹ گورنر جے سی مرمو کی جگہ سابق وفاقی وزیر منوج سنہا کو لفٹننٹ گورنر بناکر بھیجا تھا۔ تجزیہ کاروں نے اسے مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں سیاسی اقدامات کی بحالی کے حوالے سے پیغام دینے کی کوشش قرار دیا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آنے والے وقت میں ہی پتہ چل سکے گا کہ حکومت حالات کو معمول پر لانے کے تئیں کتنی مخلص ہے۔ کیوں کہ پہلے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے بعد لاک ڈاون اور اس کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب جموں و کشمیر کی اقتصادی حالت تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ حالانکہ چند معروف سیاست دانوں کو حکومت نے رہا کردیا ہے لیکن اب بھی متعدد اہم سیاسی اور سماجی رہنما اور سینکڑوں شہری بھارت کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے دونوں اقدامات محض اتفاق نہیں ہیں بلکہ کشمیریوں کو پیغام دینا ہے کہ حکومت ان کے تحفظات کو دور کرنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف بھارتی سکیورٹی فورسز نے بھی دعوی کیا ہے کہ عوام کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر ردعمل میں بھی بہتری آئی ہے اور فورسز کو واپس بنلانے کے فیصلے سے قبل سکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم نے 15 اگست کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا دورہ کیا اور فیلڈ کمانڈروں سے تبادلہ خیال کر کے فورسز کی واپسی کے لیے راستہ ہموار کیا۔
بہر حال بعض تجزیہ کار حکومت کے اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ کشمیر ٹائمز کے صحافی پی ایل انیال کا ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 'یہ لوگ سوچتے ہیں کہ حالات قابو میں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ حکومت کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔‘ انیال کا کہنا تھا کہ نیم فوجی دستوں کی واپسی کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ یہ فیصلہ پوری طرح سیاسی فیصلہ ہے۔
ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل اتپل بھٹاچاریہ بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی ہے۔ ان کا کہنا تھا”میں اگر یہ کہوں کہ یہ صرف سیاسی فیصلہ ہے تو غلط ہوگا اور اگر یہ کہوں کہ یہ سیاسی نہیں ہے تو یہ بھی غلط ہوگا۔ ہر چیز کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو کے ایک صحافی نے گزشتہ دنوں یوم آزادی کے موقع پر کشمیر کے اپنے دورے کے دوران پایا کہ شہر میں آزادی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ تمام سڑکیں سنسان پڑی تھیں، لوگ اپنے اپنے گھروں میں 'قید‘ تھے اور سڑکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر سکیورٹی فورسز کے ہتھیار بند جوان کھڑے تھے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری حکم نامے کے مطابق جن 100 کمپنیوں کو کشمیر سے واپس بلایا جارہا ہے ان میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی 40 کمپنیوں کے علاوہ بارڈر سکیورٹی فورسیز، سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورسیز اور ششتر سیما بل کی بیس بیس کمپنیاں شامل ہیں۔ ایک کمپنی میں تقریبا ً100جوان ہوتے ہیں۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔