چینی صدر شی جن پنگ کے دو روزہ دورہ نیپال کے درمیان دونوں ممالک نے ریل رابطے سمیت بیس معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ نیپال کے تمام تر تجارتی رابطوں کا انحصار بھارت پر ہے، تو کیا نیپال بھارت پر اپنا یہ انحصار کم کر رہا ہے؟
اشتہار
چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ نیپال میں دونوں ممالک نے ریل رابطے اور سرنگ کے ذریعے نیپال اور تبت کے علاقوں کو ملانے جیسے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس طرح نیپال کے پاس تجارت کے لیے بھارت کے متبادل راستے بھی دستیاب ہو جائیں گے۔
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو اور تبتی شہر گئیرون کو جوڑنے کے لیے ستر کلومیٹر طویل ریل رابطہ تعمیر کیا جائے گا۔ یہ نیپال کے لیے ایک نہایت اہم منصوبہ ہو گا۔
اس سلسلے میں ایک چینی ٹیم پہلے ہی ایک عبوری مطالعاتی رپورٹ تیار کر چکی ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر منصوبے کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہو گی۔ شی جن پنگ کے اس ویژن کے مطابق چین کو ایشیا اور یورپ کے مختلف ممالک کے ساتھ جوڑنا ہے۔
اس کے علاوہ نیپال اور چین نے 28 کلومیٹر طویل ایک سرنگ کی تعمیر پر بھی اتفاق کر لیا ہے، جو دونوں ملکوں کو ایک سڑک کے ذریعے جوڑنے کا کام دے گی۔ نیپالی وزیر برائے فزیکل انفراسٹرکچر اینڈ ٹرانسپورٹ راجیشور گیاوالی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ اس سلسلے میں اب چینی ایک ایسی رپورٹ مرتب کرے گا، جو ریل منصوبے اور سرنگ کی تعمیر کی موزوں ہونے سے متعلق ہو گی۔
سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس
چینی حکومت نے 1989ء میں جمہوریت کے حق میں نکالے جانے والے مظاہروں کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم AP کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر چند دیگر صحافیوں کی طرح کچھ یادگار لمحات محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی دیوی
چار جون کو سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اُسی مقام پر جہاں چار جون 1989ء کو جمہوریت نواز مظاہرین کی ایک ریلی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، وہیں فوجی دستوں نے 33 فٹ لمبے اس زیر تعیمر مسجمے کو بھی مسمار کر دیا تھا، جیسے ’جمہوریت کی دیوی‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: Jeff Widener/AP
نغمہ سرا خاتون پولیس اہلکار
چینی سکیورٹی فورسز کے خونی کریک ڈاؤن سے قبل پُرتناؤ ماحول میں مقامی شہری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو اکثر تحائف بھی پیش کرتے تھے۔ کبھی کبھار سکیورٹی اہلکار بھی مظاہرین کے ساتھ مل کر حب الوطنی پر مبنی گیت گنگنایا کرتے تھے۔ سانحہ تیانمن اسکوائر سے کچھ روز قبل ایک خاتون پولیس اہلکار مظاہرین کے ساتھ مل کر ایک ملی ترانہ گا رہی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جدوجہد
چارجون 1989 کو سکیورٹی فورسز نے تیانمن اسکوائر پر قابض جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران سینکڑوں شہری مارے بھی گئے تھے۔ اس عسکری کارروائی سے ایک روز قبل پولیس اہلکار ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے۔ بعد ازاں اُسی رات فوج نے تیانمن اسکوائر پر جمع مظاہرین پر بلا تخصیص فائرنگ شروع کر دی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
چھینے ہوئے ہتھیار
تیانمن اسکوائر پر فوجی کارروائی سے کچھ دن قبل لی گئی ایک تصویر۔ جمہوریت نواز مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔ ایک بس کی چھت پر رکھے گئے ان ہتھیاروں کو دیکھنے کے لیے ہزاروں مظاہرین وہاں جمع ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی خاطر جنگ
تین جون کی رات ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک بکتر بند فوجی گاڑی پر موجود مظاہرین۔ مظاہرین کی طرف سے تیانمن اسکوائر پر لگائی گئی رکاوٹوں کو اسی گاڑی نے روند ڈالا تھا۔ اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چینی فوجی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرنے کی تیاری میں تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جلتی ہوئی بکتر بند گاڑی
تین جون کی رات کو ہی جمہوریت نواز مظاہرین نے تیانمن اسکوائر کے نواح میں واقع چنگ اَن ایونیو میں ایک فوجی گاڑی کو نذر آتش کر دیا تھا۔ فوٹو گرافر جیف وائڈنر کی طرف سے لی گئی یہ آخری تصویر تھی، جس کے بعد ان کے چہرے پر ایک پتھر آن لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
کریک ڈاؤن
چار جون کو پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی بیجنگ ہوٹل کے بالکل سامنے واقع چنگ اَن ایونیو میں گشت کرتے ہوئے۔ اُس وقت تک طالب علموں کی طرف سے جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو کچلا جا چکا تھا۔ اُسی دن فوج نے بیجنگ ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہوئے سیاحوں پر بھی فائرنگ کی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ٹینکوں کے سامنے کھڑا تنہا شخص
خونی کریک ڈاؤن کے ایک دن بعد ہی ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے ایک نامعلوم شخص نے چنگ اَن ایونیو میں ٹینکوں کو عارضی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ شخص ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ یہ کون تھا اور اب کہاں ہے۔ اس سانحے کے دوران لی جانے والی تصاویر میں یہ ایک انتہائی مقبول تصویر شمار کی جاتی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ہیروز، جو ہلاک ہو گئے
پانچ جون 1989ء کو چنگ اَن ایونیو میں جمع ہونے والے افراد ایک روز قبل ہونے والے خونی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہو جانے والے مظاہرین کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
خاکروب
چار جون کے سانحے کے ایک روز بعد چنگ اَن ایونیو پر صفائی کا کام کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر بسوں اور فوجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک یا زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ماؤ کی ’حفاظت‘
جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد تیانمن اسکوائر پر فوجی اور ٹینک تعینات کر دیے گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
’شہرِ ممنوعہ‘
بیجنگ کے وسطی علاقے ’شہر ممنوعہ‘ میں لی گئی ایک تصویر، جس میں اے پی کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر (بائیں) اور لِیو ہیونگ ِشنگ مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بے خبر تھے کہ کچھ دن بعد ہی چینی فورسز طاقت کے بل پر جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والی ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
12 تصاویر1 | 12
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015 اور 2016 میں بھارت کے ساتھ زمینی رابطوں کی بندش کی وجہ سے کئی ماہ تک نیپال کو ایندھن اور ادویات کی قلت کا سامنا رہا تھا اور تب سے نیپالی حکام متبادل راستوں کی دستیابی پر اصرار کر رہے ہیں۔
گیاوالی نے کہا، ''اگر ہمیں دوبارہ سرحدی بندشوں کا سامنا ہوا تو یہ تعمیرات ہمیں متبادل تجارتی راستے مہیا کریں گی۔‘‘
نیپال، چین اور بھارت کے درمیان ایک قدرتی بفر کی صورت میں واقع ہے، جب کہ دونوں ممالک کی کوشش رہی ہے کہ وہ اس ریاست پر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کریں۔ بھارت نیپال کی تیل کی ضروریات کا واحد سپلائر ہے جب کہ نیپال کی دو تہائی تجارت بھی بھارت کے راستے ہی ہوتی ہے۔