چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے اس ضمن میں کوئی حتمی رائے دینا آسان نہیں ہے۔
اشتہار
بدھ 22 مارچ کی شام ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد اور ان کے ''ہینڈلرز‘‘ نے پلان بنایا ہے جس کے مطابق زمان پارک کے اندر آج یا کل آپریشن کیا جائے گا اور اس دوران مبینہ طور پر ''پلانٹڈ لوگ ‘‘ پی ٹی آئی کے حامیوں میں شامل ہو کر پولیس والوں کو ماریں گے، اس کے جواب میں وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح لوگوں کو قتل کریں گے۔ عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں بھی مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996 کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
کیا عمران خان کی جان کو واقعی خطرہ ہے؟
تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان پر اس سے پہلے بھی ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پاپولر سیاسی لیڈرز کو منظر عام سے ہٹانے کی کئی ایک مثالیں بھی موجود ہیں، اس لیے عمران خان کے اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان کے مطابق عمران خان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ان کو کئی مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے اس لیے اگر وہ کسی قاتلانہ حملے کے خوف سے عدالتوں میں تو پیش نہیں ہوتے مگر چند دن بعد مینار پاکستان کے قریب ہونے والے پارٹی کے جلسے میں شرکت کرتے ہیں تو اس سے ان کے موقف کو زد پہنچے گی۔
ہم سب خطرے میں ہیں؟
سینئر صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کو مکمل سکیورٹی ملنی چاہیے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالات خراب ہیں عمران خان کی جان کو اتنا ہی خطرہ ہے جتنا ہم سب کو یا دیگر سیاسی لیڈروں کی جان کو خطرہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن پر متعدد حملے ہو چکے ہیں، نواز شریف کو مارنے کی بھی کوشش ہو چکی ہے، لیکن ان کی رائے میں اگر عمران خان کی جان کو واقعتاﹰ سینگین خطرات لاحق ہیں تو پھر ان کی حمایت میں فیصلے صادر کرنے والی عدلیہ کیوں اس بات کا نوٹس نہیں لیتی تاکہ حقائق سامنے آ سکیں: ''میرے خیال میں عمران خان کو بھرپور سکیورٹی ملنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سوال کا جواب بھی ایمانداری سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر عمران خان کی حفاظت کے لیے ان کو ان کے اطمینان کے مطابق سینکڑوں سکیورٹی گارڈز اور بلٹ پروف گاڑیاں بھی مہیا کر دی جائیں تو کیا وہ فرد جرم کی کارروائی کی تکمیل کے لیے عدالت میں پیش ہونے پر تیار ہوں گے؟‘‘
حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے
کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ خود وفاقی وزارت داخلہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ عمران خان سمیت کئی سیاسی لیڈروں کو دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ہے، الیکشن کے التوا کے لیے بھی کئی ایجنسیاں اپنی رپورٹس میں امن و امان کے حوالے سے تشویش ناک صورتحال کا اظہار کر چکی ہیں۔ سلمان عابد کے بقول اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے اس سے پہلے اپنے اوپر حملے کا جو خدشہ ظاہر کیا تھا وہ اسی طرح وقوع پذیر ہوا۔ ان کے نزدیک عمران خان کے ارد گرد اکٹھے ہونے والے ہجوم میں نامعلوم افراد کی موجودگی عمران کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ زلمے خلیل زاد کا بیان بھی عالمی تشویش کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے حکومت عمران خان کے خدشات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
اشتہار
کیا دہشت گرد اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کا خیال ہے کہ حالات خراب ہیں اس لیے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے: ''پاکستان کے دشمن ممالک کی ایجنسیاں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ ملک کو پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اگر اس نازک صورتحال میں ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو پھر ملک شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کے خیال میں عمران کے خدشات درست بھی ہیں اور ان خدشات کے اظہار سے انہیں فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ سیاسی طور پر انہیں ہمدردیاں مل رہی ہیں، عدالتیں بھی ان کی بات سن رہی ہیں، حکومت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور عالمی رائے عامہ بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے مقبول ترین لیڈر کے ساتھ ہونے والے ملک کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ اس لیے عمران کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے: ''دیکھئے تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اس ضمن میں حکومت اور عمران خان دونوں کو اپنے طرز عنمل کو بہتر بنانا ہوگا‘‘
اگر عمران کو نقصان پہنچا تو ردعمل کیسا ہو گا؟
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو کوئی نقصان پہنچا تو یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس سے پاکستان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا: ''اللہ نہ کرے کہ کوئی ایسا واقعہ ہو۔ ایسی صورت میں ملک کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ خاص طور پر کے پی صوبے میں وہی صورتحال ہوگی جو بے نظیر کی شہادت کے بعد سندھ میں دیکھی گئی تھی۔ ان کے نزدیک ایسا تصوربھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ ‘‘
عمران خان پر فائرنگ کے فوری بعد کے مناظر
01:20
عمران کی حفاظت کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟
مظہر عباس کہتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ عمران خان کے خدشے کے پیچھے ان کے پاس کیا شواہد موجود ہیں اس لیے حکومت کو ایک طرف عمران خان کے اطمینان کے مطابق انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے دوسری طرف ان کے ایسے خدشات کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن بنانا چاہیے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں: ''اس مقصد کے لیے حکومت عمران خان کے پاس اعلی سطحی وفد بھیج کر ان سے بات چیت کا آغاز کرے۔‘‘
عمران خان خود بھی احتیاط کریں؟
مظہر عباس کی رائے میں عمران خان کو بڑے بڑے جلوس لے کر باہر نکلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کے ارد گرد جتنا ہجوم کم ہوگا اتنی ان کی سکیورٹی زیادہ مؤثر ہوگی اور کسی کو شرارت کا موقع نہیں ملے گا۔ نوید چوہدری کے بقول ماضی کے کچھ جرنیلوں نے ملک میں جتھوں کی جس سیاست کو رواج دیا تھا عمران خان سمیت سارے سیاست دانوں کو اس سے باہر نکلنا ہوگا اور جمہوریت کی بقا کے لیے مکالمے اور مفاہمت کی طرف آنا ہوگا۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔