کیا پاکستانی معاشرے میں برداشت ختم ہو چکی؟
7 جنوری 2011پاکستان میں متعدد مقامات پر ممتاز قادری کی حمایت میں بینرز لگائے گئے ہیں، جن پر"ممتاز قادری تیری عظمت کو سلام" اور دیگر نعرے تحریر ہیں۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر راولپنڈی میں وکلا کی بڑی تعداد نے ممتاز قادری پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور اس کے لیے مفت قانونی خدمات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اسلام آباد میں جمعرات کے روز ممتاز قادری کی حمایت میں ایک مظاہرہ بھی کیا گیا۔ قتل ہونے کے بعد بھی پنجاب کا مقتول گورنر ہی قصور وار ٹھرایا جا رہا ہے اور دوسری جانب ماورائے عدالت قتل کرنے والے ملزم ممتاز قادری پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں درجنوں علماء کی طرف سے پاکستانیوں کو سلمان تاثیر کا جنازہ نہ پڑھنے اور ان کی موت پرافسوس نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ شاید اسی لیے کسی بھی مذہبی جماعت کا کوئی بھی رہنما ان کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا۔ حتی کہ کئی معتدل مزاج علماء، محکمہ اوقاف کے سرکاری خطیبوں اورگورنر ہاؤس کی مسجد کے خطیب بھی سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ یہ فریضہ پیپلز پارٹی پنجاب کے علماء ونگ کے سکریٹری جنرل مولانا افضل چشتی نے سرانجام دیا۔ پاکستان میں کئی لوگوں نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے لیے فتوے جاری کر رکھے تھے۔ بعض لوگوں نے تو قاتلوں کے لیے انعام بھی مقررکر رکھا تھا۔
ادھرانٹرنیٹ پر فیس بک، ٹویٹر، بلاگوں اورای میل گروپوں کے علاوہ ٹیلی فون پیغامات کے ذریعے بھی ممتاز قادری کی حمایت میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف کالم نگار نے علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کریں کہ سلمان تاثیرکے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے یا نہیں۔
کئی لوگ سلمان تاثیر کے حق میں بات کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنے روایتی موقف سے ہٹ چکی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے بحث کے میدانوں تک ہر طرف خوف کا سماں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اسکا کوئی جذباتی مخالف اگلے لمحے کیا کرنے والا ہے۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور ممتاز تجزیہ نگار افتخار احمد نے ڈوئچے ویلےکو بتایا کہ موجودہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق سلمان تاثیر سے اختلاف کرنے والوں نے خود ہی فیصلہ کیا اور خود ہی ان کو قتل کرکے اس پر عمل بھی کر دیا۔ ان کے مطابق یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو آگے چل کرعدالتی نظام کو مفلوج کرنے سمیت معاشرے میں کئی بڑے مسائل پیدا کرے گا۔
افتخار احمد کے مطابق انیس سو ستترمیں جمہوریت کے نام پرایک تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس میں انیس سو ستر کی قیمتیں واپس لانے کا اعلان کیا گیا، آگے چل کر یہ جدوجہد تحریک نظام مصطفی کی شکل اختیار کر گئی، پھر بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اورصورتحال بدل گئی۔ ان کے مطابق مذہب، مسلک اورعقیدے کے مسائل پر محتاط گفتگو ہونی چاہیے اور کسی فریق کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ان مسائل کا حل قانون کی حکمرانی میں ہی مضمر ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد
ادارت : عدنان اسحاق