کیا پاکستان اور سعودی عرب ایک بار پھر قریب آرہے ہیں؟
عبدالستار، اسلام آباد
10 اگست 2018
پاکستان کے کئی حلقوں میں ملک کا قریبی دوست سمجھے جانے والا ملک سعودی عرب نواز شریف کے دورِ حکومت میں اسلام آباد سے ناراض نظر آیا لیکن حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر خوشگواری دکھائی دے رہی ہے۔
اشتہار
کینیڈا کے ساتھ کشیدگی کے مسئلے پر پاکستان کی طرف سے ریاض کی حمایت اور اسلامی ترقیاتی بینک کی طرف سے پاکستان کے لیے چار بلین ڈالرز کے قرضے کے اعلان کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے کے پھر سے قریب آرہے ہیں۔ تاہم کئی ناقدین اس قربت کے ممکنہ نتائج پر بھی غور و فکر کر رہے ہیں۔کچھ اس قربت کو پاکستان کے لیے بہتر سمجھتے ہیں جب کہ کچھ کے خیال میں قدامت پرست بادشاہت یہ سب کچھ اپنے مفاد کے لیے کر رہی ہے۔
تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کے خیال میں ان تعلقات میں بہتری کی ایک وجہ عمران خان کی شخصیت بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے امجد شعیب نے کہا، ’’دنیا کو معلوم تھا کہ نواز شریف اور ان کی حکمران جماعت چاہے کتنے ہی دعوے کر لے لیکن وہ قابلِ بھروسہ نہیں ہے ۔ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔اس لیے سعودی عرب سمیت دنیاکے کئی ممالک پاکستان سے بہتر تعلقات کرنے کے خواہاں ہیں، جو ملک کے لیے بہت اچھی بات ہے۔‘‘
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
ان کے خیال میں نواز شریف نے سعودی عرب کو دو بار دھوکا دیا جس کی وجہ سے اُس کے دورِ حکومت میں حالات نا خوشگوار ہوئے۔ امجد شعیب کے مطابق، ’’پہلے تو نواز شریف نے مشرف کے دور میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی، جس پر ریاض ناراض ہوا اور پھر یمن کے مسئلے پر نواز شریف نے ذاتی حیثیت میں سعودی عرب کو یقین دہانی کرائی کہ فوج یمن بھیجی جائے گی۔ تاہم پارلیمنٹ نے فوج بھیجنے سے صاف انکا ر کر دیا۔ نواز شریف کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایسا وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب یہ خوش آئند بات ہے کہ ہمارے سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان یمن میں فوج نہیں بھیجے گا۔ پاکستان نے ریاض کو مشورہ دیا تھا کہ یمن کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ اب سعودی عرب کو بھی اس غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ بھی وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں کیوں کہ یمن سے کبھی کوئی فتح حاصل کر کے نہیں نکلا۔‘‘
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکرنجم الدین کے خیال میں سعودی عرب تعلقات میں بہتری اپنے مفاد میں لا رہا ہے۔ ڈاکٹر نجم الدین کے مطابق، ’’محمد بن سلمان اپنے حمایتی ڈھونڈ رہے ہیں۔ ریاض کو معلوم ہے کہ اسلام آباد کے انقرہ اور تہران سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ تو پاکستان کی امداد کر کے وہ یہ امید کریں گے کہ اسلام آباد ان کی حمایت کرے۔ میرے خیال میں بین الاقوامی فورموں پر اگر ریاض کے خلاف کوئی ایکشن ہوتا ہے یا کسی مسئلے پر سعودی حکومت کی مذمت کی جاتی ہے، تو ایسی صورت میں پاکستان یا سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا یا پھر خاموش رہے گا لیکن کسی بین الاقوامی سطح پر سعودی مخالف اقدام کی حمایت نہیں کرے گا۔‘‘
ناقدین کے خیال میں اسلامی ترقیاتی بینک نے چار بلین ڈالرز کے قرضے کا اعلان سعودی اشارے پر کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی یا علاقائی مالیاتی اداروں کو جو ملک جتنا زیادہ فنڈز فراہم کرتا ہے، توایسے اداروں پر پھراُس ہی ملک کا زیادہ اثر و رسوخ بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ امریکا اور مغربی ممالک آئی ایم ایف کو زیادہ فنڈنگ دیتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس مالیاتی ادارے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکا نے حال ہی میں آئی ایم ایف کو خبردار بھی کیا کہ وہ پاکستان کی مدد کرنے سے باز رہے۔
تاہم معیشت دان ڈاکڑ اشفاق حسن کے خیال میں سعودی عرب اسلامی ترقیاتی بینک کے معاملے میں ایسا کوئی اثر و رسوخ استعما ل نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں سعودی عرب کے کہنے پر یہ رقم نہیں دی جا رہی بلکہ یہ ایک عام طریقہ ہے جو ایشین ڈیولپمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور دوسرے بینک بھی اپناتے ہیں کہ ہم نے اتنا پیسہ آپ کو تین سال کے لیے دے دیا ہے ۔ تو اسلامی ترقیاتی بینک نے یہ پیسہ Commodity Financing کے لیے دیا ہے۔ میرے خیال میں اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم اس قرضے سے کوئی بہت بڑی معاشی مشکل حل نہیں ہوگی۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔