ایران میں مظاہروں کے ساتھ ہی چند پاکستانی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سعودی عرب اور امریکا تہران کے خلاف کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں قدامت پسند سعودی بادشاہت بھی چاہتی ہے کہ اسلام آباد ریاض کا ساتھ دے۔
اشتہار
پاکستان میں ممکنہ طور پر ایک نیا ’قومی مصالحتی آرڈیننس‘ یا این آر او لائے جانے کی افواہیں بھی گردش میں ہیں اور شریف برادران کی سعودی عرب میں موجودگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس دورے کا ایک مقصد پاکستان کو ایران مخالف اتحاد کا حصہ بننے کا قائل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ نے ایران کا دورہ کر کے سعودی عرب کو خفا کیا ہے۔ اسی لیے اب ریاض حکومت سیاسی قیادت کے ذریعے ایران مخالف اتحاد بنانے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔
احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ لیکن انہیں حکومت کرنے کے لیے پیسہ چاہیے اور اس کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ آئندہ چند ماہ میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر تک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس صورت میں سعودی عرب پاکستان کی مالی مدد کر تو سکتا ہے لیکن اس کے عوض وہ یقیناً کچھ یقین دہانیاں بھی چاہے گا۔ ایران میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ وہاں تشدد کی لہر دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ آٹھ دس ماہ میں وہاں حالات مزید کشیدہ ہو جائیں۔ ایسی صورت میں سعودی عرب وہاں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کر سکتا ہے۔ ریاض ممکنہ طور پر پاکستان سے کہہ سکتا ہے کہ وہ جیش العدل جیسے گروپوں کے لیے مسائل کھڑے نہ کرے اور ان کی کارروائیوں کو نظر انداز کریں۔ لیکن ایسے گروپ ایران کے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔‘‘
کئی دوسرے تجزیہ نگاروں کو بھی خطے میں ایران مخالف ماحول زیادہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کہتے ہیں کہ نہ صرف امریکا اور سعودی عرب ہی ایران کے خلاف کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسرائیل بھی ایسی کارروائیوں کا حصہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اسرائیل اور سعودی عرب ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہیں۔ وہ وہاں کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کو ایسی صورت میں بالکل غیر جانبدار رہنا چاہیے ورنہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب جانتا ہے کہ پاکستان کو مالی مدد کی سخت ضرورت ہے، ’’اس مالی مجبوری کی وجہ سے ریاض پاکستان کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اسلام آباد کو کسی بھی چھوٹے موٹے مفاد کے لیے ایران کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔ ایران میں مسائل کھڑے کرنا سعودی عرب، اسرائیل اور امریکا کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ یہ بات درست ہے کہ ایران میں اس وقت اندرونی اختلافات ہیں لیکن کسی بھی غیر ملکی مداخلت کی صورت میں ایرانی عوام متحد ہو جائیں گے اور سعودی عرب اپنے ممکنہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کی رائے بھی یہی ہے کہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو ایران کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم ماضی میں دوسروں کی جنگ میں کودے اور افغانستان کے خلاف گئے، جس کی وجہ سے ہمیں ایک سو بیس بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اس کے باوجود ہمیں آج بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اگر ہمیں سعودی عرب سے مالی امداد نہیں ملتی تو نہ ملے۔ ہم اب کسی اور کی جنگ میں کود کر اپنے ملک کو برباد نہیں کریں گے۔ اگر امریکا اور سعودی عرب ایران کے خلاف کوئی محاذ کھولتے ہیں، تو پاکستان اس کی حمایت نہیں کرے گا۔‘‘
اسلام آباد میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما راجہ ظفرالحق نے اس بارے میں کہا، ’’ہم ایران عراق جنگ کے دوران غیر جانبدار تھے اور ہم اب بھی غیر جانبدار ہیں۔ پاکستان ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان کوئی کشیدگی ہوتی ہے تو ہمیں اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں اس کا کوئی حصہ تو بالکل نہیں بننا چاہیے۔‘‘
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔