عمران خان پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم عام انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا عمل ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان جو اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، عام انتخابات کے انعقاد پر سرمایہ خرچ کر بھی سکتا ہے؟
اشتہار
پاکستان میں نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی سمجھتے ہیں کہ ملک کو موجودہ سیاسی اوراقتصادی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ عام انتخابات ہیں۔ ان کے مطابق کسی سیاسی جماعت یا اتحاد کو ملنے والی تازہ عوامی تائید و حمایت ملک کے مفاد میں ہو گی۔ تاہم عام انتخابات کا مطالبہ کرنا آسان ہے اور ان کا انعقاد مشکل۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی مشکلات کی شکار پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کی حکومت عمران خان کے اس مطالبے کو قبول کرنے میں جھجھک رہی ہے۔ اسے خوف ہے کہ ایسی صورت میں سابق وزیر اعظم عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
عمران خان گزشتہ برس اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کر دیے گئے تھے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ اور امریکہ پر عائد کرتے ہیں۔
سابق کرکٹر اور تحریک انصاف کے سربراہ حالیہ کچھ عرصے میں عوامی جائزوں میں مقبولیت کے حوالے سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے جب کہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض کے حصول میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اقتصادی بحران، مہنگائی اور گیس اور بجلی کی شدید قلت نے شہباز شریف حکومت کو عوام میں خاصا غیرمقبول بنا دیا ہے۔
پاکستان کا اقتصادی بحران
پاکستان میں ایندھن اور دیگر اشیائےضرورت کی قلت اور ساتھ ہی تاریخی حد تک زیادہ مہنگائینے اشیائے خور و نوش کو عام افراد کی رسائی سے دور کر دیا ہے۔ کراچی سمیت کئی اہم شہروں میں پٹرول پمپوں پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، جب کہ کئی گھروں میں کھانا پکانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں ہے۔ ادھر کارخانے بھی ایندھن اور بجلی کی قلت کی وجہ سے اپنا کاروبار جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
چھبیس جنوری کو پاکستانی روپے کی قیمت نو اعشاریہ چھ فیصد گری۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک روز میں روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ اتنا شدید ہے کہ کئی غیرملکی کنٹینرز کئی کئی ہفتوں سے بندرگاہوں پر موجودد ہیں، جب کہ حکومت کے پاس سرمایہ نہیں کہ اسے ادا کر کے وہ سامان وصول کیا جائے۔ ایسے میں شریف حکومت ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے قرض کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی فنڈسے ملنے والی انتہائی مشکل شرائط کا سامنا کر رہی ہے۔
اشتہار
انتخابات ایک مہنگا عمل
کیا نئے انتخابات پاکستان کو ان مشکلات سے نکال سکتے ہیں؟ تحقیقاتی صحافی اور سیاسی مبصر ضیا رحمان کے مطابق ملک کا اقتصادی بحران بہت بڑا ہے اور ریاست کے پاس سرمایے کی شدید قلت۔ ''نئے انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا عمل ہے اور فی الحال میری نگاہ میں پاکستان میں اس خرچ کی سکت نہیں۔‘‘
رحمان کے مطابق، ''مثالی راستہ فقط یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور اعلیٰ فوجی قیادت مل کر بیٹھیں اور ایک قومی حکومت قائم کی جائے، جس کی اہم ترین ترجیح ملکی معیشت کی بحالی ہو۔‘‘
تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس سلسلے میں کسی قومی بحث میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان ہیں۔ سینیئر صحافی غازی صلاح الدین کے مطابق، ''عمران خان سیاست کو کھیل کی طرح دیکھتے ہیں۔ کھیل میں کھلاڑی کا واحد مقصد مخالف کو کسی بھی قیمت پر شکست دینا ہوتا ہے۔ سیاست لیکن یوں کام نہیں کرتی۔ سیاست دانوں کو ہر کسی سے مل بیٹھنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی۔‘‘
عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے اہم اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک کی بنیاد پر کسی بھی قومی بات چیت کی جگہ نہیں نکلتی۔ حالیہ کچھ عرصے میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے جب کہ عمران خان بھی کرپشن کے متعدد الزامات کے تحت ممکنہ گرفتاری کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا تاہم کہنا ہے کہ حکومت عام انتخابات میں تاخیر کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے، تاہم دن گنے جا چکے ہیں۔
سکیورٹی مسائل
پاکستان کو اس وقت فقط معاشی مسائل ہی درپیش نہیں بلکہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک اوراہم مسئلہ سکیورٹی صورتحالکا بھی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ عرصے میں اپنے پرتشدد حملوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ فروری میں طالبان کے ایک خودکش اسکواڈ نے کراچی میں ایک پولیس عمارت کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ جنوری میں پشاور میں ایک ایسی مسجد بم حملے کا نشانہ بنی جہاں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد نماز ادا کرتی تھی۔ اس واقعے میں اسی سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔
سیاسی تجزیہ کار ضیا رحمان کے مطابق، ''پاکستان کے پاس ان سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی سرمایہ موجود نہیں ہے۔ اس سے ملک کی سلامتی اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘‘
پاکستان کی طاقت ور فوج کے لیے بھی موجود صورت حال ہموار نہیں۔ اس وقت فوج کو عمران خان اور ان کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں مبصرین کے مطابق نئے انتخابات سیاسی محاذآرائی کے خاتمے کا سبب نہیں ہوں گے اور ان سے پاکستان کی اقتصادی اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری کی بجائے ابتری پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔