کیا پاکستان واقعی سفارتی تنہائی کا شکار ہے؟
18 اکتوبر 2016اڑی حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ دہشت گرد کنٹرول لائن پار کر کے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب اڑی میں بھارتی فوج کے اڈے پر دہشت گردوں کے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ گزشتہ ماہ بھارت نے پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا تھا۔
اب حال ہی میں برکس ممالک کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت کے ہمسائے میں ’’دہشت گردی کا گڑھ موجود ہے‘‘۔ تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں کے اس سربراہی اجلاس میں مودی نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ اس تنظیم کو دنیا بھر میں دہشت گردوں سے رابطے رکھنے والے اس ملک کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ تاہم برکس کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے بھارتی صحافی اوما شنکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت کو معلوم ہے کہ برکس ممالک کے الگ الگ مفادات ہیں لیکن بھارت نے اپنے حساب سے پاکستان پر تنقید کرنے کے لیے زور لگایا ہے۔‘‘ اوما شنکر کہتے ہیں کہ برکس بے شک ایک اقتصادی بلاک ہے لیکن بھارت نے اس سمٹ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ماحول دہشت گردی سے پاک ہو۔
اوما شنکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’گوا ڈیکلریشن میں جیش محمد، لشکر طیبہ، اور سرحد پار دہشت گردی کا ذکر نہیں ہے ان سب باتوں سے لگتا ہے کہ بھارت جس طرح سے اعلامیہ بنوانا چاہتا تھا وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔‘‘
پیر کے روز چینی وزارت خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور بین الاقوامی برادری کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون میں اضافہ کرنا چاہیے اور یہ کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور دنیا کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
پاکستانی صحافی اویس توحید چین کے اس بیان کو پاکستان کی سفارتی کامیابی ٹھہرا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’برکس سمٹ سے قبل بھارت میں جو بیانیہ پیش کیا گیا، برکس سمٹ میں بھارت وہ حاصل نہیں کر پایا۔‘‘ اویس توحید کہتے ہیں کہ برکس ایک اقتصادی اتحاد ہے اور مستقبل میں پاکستان بھی اس اتحاد کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن اس سمٹ کے دوران دہشت گردی کا ذکر کرنے اور پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا پالیسی سازوں کے لیے باعث فکر تھا۔
پاکستان کے سابق سفیر علی سرور نقوی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سارک کانفرنس پہلے بھی کئی مرتبہ منسوخ ہو چکی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کی ایک بڑی وجہ علاقائی صورتحال ہے۔‘‘ علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ برکس سمٹ میں بھارت نے ’تھرڈ کنٹری رول‘ توڑتے ہوئے پاکستان کی غیر موجودگی میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن وہ چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کو پاکستان کے خلاف بولنے پر مجبور نہیں کر پایا۔‘‘ علی سرور نقوی نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشتگردی کے خلاف آپریشن پاکستان میں کیا جارہا ہے اور چین نے اپنے بیان میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔
پاکستانی صحافی اویس توحید کہتے ہیں پاکستان میں بھی بحث چل رہی ہے کہ غیر ریاستی اداروں اور عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام دروازے بند ہیں، سفارتی اور ثقافتی طور پر دونوں ممالک کے تعلقات بالکل منجمد ہو گئے ہیں یہ دونوں ممالک سمیت اس خطے کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔‘‘