کیا پاکستان کو بنگلہ دیش سے معافی مانگنی چاہیے؟
3 اپریل 20211971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ اس جنگ میں بنگلہ دیش کی قوم پرست تحریک کے ذریعے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش بن گیا۔ اس جنگ کے دوران قریب تیس لاکھ افراد نے اپنی زندگیاں کھوئیں۔
سرد مہری سے عبارت تعلقات میں کچھ روز قبل بہتری آئی جب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کو مبارک باد دی اور اسی طرح پاکستانی وزیر اعظم نے بھی بنگلہ دیش کی پچاسیوں سالگرہ کے موقع پر شیخ حسینہ کو تہنیتی پیغام بھیجا۔
زخم کافی گہرے ہیں
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات عرصہء دراز سے تناؤ کا شکار ہیں۔ مصنفہ انعم ذکریہ کی رائے میں اگر دونوں ممالک تعلقات میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو پاکستان کو 1971ء کے تشدد کو تسلیم کرنا ہوگا اور اس ملک کی پیدائش سے قبل بنگالی افراد کے ساتھ سیاسی، معاشی اور ثقافتی طور پر امتیازی رویے کا بھی اعتراف کرنا ہوگا۔ ذکریہ کی رائے میں ماضی کا اعتراف کرنا اور پاکستان کا 1971ء کی جنگ میں ہونے والے مظالم پر معافی مانگنا دونوں ممالک کے درمیاں سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو گہرا کر سکتا ہے۔ انم ذکریہ کہتی ہیں،'' نصف صدی گزر جانے کے باوجود پاکستان نے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا۔ نصاب کی کتابوں، عجائب گھروں اور بنگلہ دیش کے حوالے سے بیانیے میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔''
ذکریہ کہتی ہیں کہ پاکستان کا پچاس سال قبل ماضی کے تشدد کا اعتراف نہ کرنا بنگلہ دیشی افراد کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ پاکستان ان غلطیوں کا اعتراف کرے۔ قومیں اپنے ماضی کو بھلا کر آگے نہیں بڑھ سکتیں۔''
امریکا کی ایلینائے اسٹیٹ یونیورسٹی کے پالییٹیکل سائنس کے پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے پاکستان کو کھل کر بنگلہ دیش سے معافی مانگنی چاہیے خاص کر پاکستانی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر۔
بنگلہ دیش کی جانب سے 2016ء میں جماعت اسلامی کے اہم رکن میر قاسم علی کو پھانسی دیے جانے کے باعث تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے۔ بنگلہ دیش کا کہنا تھا کہ قاسم علی نے جنگ آزدی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیروں کو واپس طلب کر لیا تھا۔
جنوبی ایشائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات نریندر مودی کی قیادت میں کافی بہتر ہوئے ہیں تاہم مسلمانوں کے حوالے سے مودی کی پالیسیوں پر بنگلہ دیش میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔'' پاکستان ان جذبات کا فائدہ اٹھا سکتا ہےاور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔''
ہارون جنجوعہ (ب،ج/ ع ق)