1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان کی قبائلی خواتین وراثت میں حصہ دار بن سکیں گی؟

22 جولائی 2023

امریکی امداد کے تحت سابقہ قبائلی علاقوں میں اراضی کی حد بندی کے لیے منصوبے کو خواتین کو واراثت میں حق دینے سے مشروط کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق انہیں فاٹا کے علاقوں میں اراضی کی حد بندی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

Pakistan Peshawar | Landreformen in ehemaligen FATA-Stammesgebieten
صوبائی محتسب کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر بیس سے پچیس خواتین وراثت میں حق کے لئے محتسب آفس سے رابطہ کر رہی ہیںتصویر: Fatima Nazish/DW

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام  سابقہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختوانخوا (کے پی)  میں انضمام کے بعد وہاں پہلی بار لینڈریفارمز کے تحت زمینوں کی حد بندی کافیصلہ توکیا گیا ہے لیکن اسے عمل کی تکمیل کے لیے درکار مستعد انتظامی نگرانی  سمیت انسانی اور مالی وسائل کی عدم دستیابی نے فاٹا میں زمینوں کی حد بندی کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔

فاٹا اصلاحات، علاقائی اور انتظامی انضمام میں سست رفتار پیش رفت

انگریز دور کے بعد اراضی کی حد بندی میں پیچیدگیاں

خیبرپختونخوا میں سال 2018 کے دوران ضم کی گئیں سات ایجنسیز اورچھ سرحدی علاقوں میں اراضی کی تقسیم کا معاملہ کافی  پیچیدہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمرانوں نے اپنے زیر قبضہ بندوبستی علاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں میں اراضی کےعوامی ریکارڈ اورحد بندی کا باقاعدہ تعین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

حکومت نے سال 2018 کے دوران سات قبائلی ایجنسیز اورچھ سرحدی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا تھاتصویر: Fatima Nazish/DW

بعد میں انگریز حکمران چلے گئے تو  فاٹا کے سات اضلاع میں غیر منقسم اور منتشر اراضی کے معاملات لڑائی جھگڑوں،زور زبردستی یا قبائلی جرگوں سے نمٹائےجانے لگے لیکن یہ صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب مئی 2018 میں فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہوا،اگلے سال ریونیو ایکٹ کو بھی قبائلی اضلاع تک توسیع دی گئی۔ پولیس اور عدالتی نظام نے کام شروع کیا لیکن اراضی کا معاملہ نئے قانون کے ساتھ سلجھنے کی بجائے اور الجھتا گیا۔

قبائلی علاقے، حاملہ خواتین کے لیے سہولیات کا فقدان

پائلٹ پراجیکٹ کے تحت خیبرپختونخوا حکومت نے ان پانچ سال میں قبائلی اضلاع کرم،خیبر اور شمالی وزیرستان میں انگریز دور سے غیر رجسٹرڈ اراضی کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش ضرور کی لیکن قبائلی تنازعات کے باعث یہ منصوبہ ذیاہ پائیدار ثابت نہ ہوا۔ عدالتیں قائم ہوئیں، پولیس بھی آگئی لیکن ججزکوزمینوں کے تنازعات کا فیصلہ سرکاری ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا ہوتا ہے اور یہاں سرکاری ریکارڈسرےسے موجود ہی نہیں۔

قبائلی کیا کہتے ہیں؟

ضلع مہمند کے ایک سماجی کارکن عبداللہ خان کے مطابق، ’’قبائلی لوگوں کی جدی پشتی زمینیں تھیں،سب کو پتہ ہوتا تھا کس کی حد بندی کہاں تک ہے پھر بھی تنازعہ پیدا ہوتا تو قبائلی جرگوں میں کافی حد تک تنازعات حل ہوجاتے اب انضمام کے بعد معاملہ عدالتوں میں جا رہا ہے اور ریکارڈکی  عدم موجودگی کے باعث اکثر فیصلہ شواہد اور گواہوں کی بنیاد پرکرنا پڑرہا ہے۔

کسی قابل بھروسہ ریکارڈ کی عدم موجودگی میں قبائلی علاقوں میں اراضی کی تقسیم ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ بن چکی ہےتصویر: Fatima Nazish/DW

 ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والےایک  صحافی عزت گل کے مطابق، ''انتظامیہ لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کے لئے وقتاﹰ فوقتاﹰ ڈیٹا تو لے رہی ہے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، بہت سی زمینیں غیر منقسم پڑی ہیں اور شاملات پر قبیلوں کے درمیان لڑائیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ کئی مقامات پربااثر لوگوں نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے،جو کسی کا حق یا جرگے کی مصالحت کو نہیں ما نتے ۔‘‘ گل کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں دو قبیلوں کے درمیان حالیہ خونریز لڑائی میں بیس سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے،جس کو مسلکی لڑائی قرار دیا جارہا ہے لیکن تنازعے کی اصل جڑ اراضی ہی ہے۔

خیبر ایجنسی: پابندی کے بعد منشیات کے کاروبار میں جدت

امریکہ کی قبائلی اراضی کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی

پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا کہنا ہے کہ امریکہ نے فاٹا میں زمینوں کی حد بندی کے فیصلے کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات میں مالی و تکنیکی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے قبائلی لینڈ رجسٹریشن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مددکا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  اس سلسلے میں امریکی امدادی اداروں یو ایس ایڈ اور ڈی اے آئی کے اشتراک سے باقاعدہ طور پر ایک ڈیجیٹل منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔

قبائلی علاقوں میں زمین کی تقسیم کے معاملے پر گاہے بکاہے خونریز تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیںتصویر: Fatima Nazish/DW

 اس منصوبے کے تحت لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے خیبرپختونخوا ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو 50 لاکھ ڈالر مالیت کا سامان بھی فراہم کر دیا گیا ہے ،جس کے بعد اس محکمہ کی اراضی کی درست پیمائش کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

اس کےساتھ ساتھ اس منصوبے کو غیر اعلانیہ طور پر قبائلی خواتین کو زمینوں میں وراثت دینے کے عمل سے مشروط کردیا گیا ہے اور اس کے لیے صوبائی محتسب کواس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔

قبائلی خواتین کا وراثت میں حق

امریکی امدادی اداروں کی مدد سے لینڈ رجسٹریشن کا منصوبہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو وراثت میں حق نہ دیے جانے کا معاملہ ایک مرتبہ پھرسامنے لے آیا ہے۔ اس معاملے پر خیبرپختونخوا کی صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ریونیو ایکٹ کے بعد خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کا قانون سن دو ہزار انیس  سے فاٹا میں بھی نافذ ہے لیکن اس سلسے میں پیشرفت کے لیے مالی اور انسانی وسائل کی قلت سے ادارے کو پہلے ہی مسائل کا سامنا ہے۔

بہت سے موقعوں پر مقامی جرگے کے ذریعے زمین کی تقسیم کے معاملات سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہےتصویر: Fatima Nazish/DW

انہوں نے کہا، ’’روزانہ بیس پچیس خواتین وراثت میں حق کے لئے محتسب آفس سے رابطہ کر رہی ہیں،اب قبائلی اضلاع میں اس عمل کو اگے بڑھانا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اس سے پہلے لینڈ رجسٹریشن کے عمل کی تکمیل ضروری ہے۔‘‘ تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اب تک صوبے کے سولہ بندوبستی اضلاع میں صرف 64فیصد لینڈ ریکارڈ جمع کرنے میں ہی کامیاب ہوئی ہے۔

اس صورتحال کی موجودگی میں  فاٹا میں لینڈ ریفارمز اور زمینوں کی حدبندی ایک طویل اور صبر آزما عمل دکھائی دیتا ہے۔

قانون تو بن گیا لیکن ’میراتہ‘ ختم کب ہو گا؟

04:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں